Naguzeer Layyah Division Aur Arakeen e Assembly
نا گزیر لیہ ڈویژن اور اراکین اسمبلی
گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا اور مختلف زائع سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزیر اعلی نے ضلع جھنگ کو ڈویژن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی حتمی منظوری صوبائی کابینہ دے گی۔ خبر کے مطابق اس ڈویژن میں لیه سمیت دیگر تین اضلاع کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ضلع لیه کے تمام حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف سے نئے اضلاع، تحصیلیں اور ڈویژن بنانا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ جسے ہم نے پہلے بھی سراہا اور آج بھی اسے قابل ستائش قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر انتظامی یونٹ جتنے زیادہ ہونگے۔ عوام کے مسائل کے حل میں اتنی زیادہ مدد ملے گی۔ مگر کوئی بھی فیصلہ اگر زمینی حقائق اور عوام کی ضرورت و سہولت کے برعکس کیا جائے تو مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اقتدار اور اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی، پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کے خاتمے اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ یہاں تک کہ سو دنوں میں الگ صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس بنیاد پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے صوبہ محاذ کے نام سے گروپ بنا کر تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔ جسے بعد ازاں تحریک انصاف میں ضم کر دیا گیا۔ کیونکہ صوبہ محاذ والوں کا واحد مقصد وزارتوں اور مراعات کا حصول تھا۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔ جبکہ الگ صوبے کا معاملہ سکڑ کر سیکرٹریٹ تک پہنچا۔ مگر آج تک مکمل فعال اور با اختیار نہ ہوسکا۔
بد قسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی مركزی حکومت اور عثمان بزدار کی وزارت اعلی کے دوران صوبائی حکومت جنوبی پنجاب کے معالے پر وہ سنجیدگی نہ دکھا سکی جس کی ضرورت تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وسیب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ہیں۔ البتہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد شاید انہیں اس بات کا احساس ہوا۔ یہی وجہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ مسلم لیگ قاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی نے حکومت میں آنے کے بعد کوٹ ادو، تلہ گنگ، مری اور تونسہ شریف کو ضلعے بنانے کے ساتھ ساتھ مختلف نئی تحصیلیں بنانے کا اعلان کیا۔ جبکہ اس سے قبل پرویز الہی نے اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن بنانے کا اعلان کیا۔
اب خبریں آرہی ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب نے جھنگ کو ڈویژن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ کیونکہ یہ جھنگ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ یقیناً احمد پور سیال کو ضلع بنا کر جھنگ اور چنیوٹ پر مشتمل ڈویژن بنایا جائے تو یہ مذکورہ اضلاع کے لیے انتہائی سود مند ہوگا۔ مگر لیه کو جھنگ کے ساتھ شامل کرنا سراسر ناانصافی اور زمینی کے برخلاف ہے۔ کیونکہ جغرافیائی طور پر لیه ڈویژن بننے کا حق رکھتا ہے۔ دو نئے اضلاع کوٹ ادو اور تونسہ شریف لیه سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔ جبکہ شمال میں ضلع بهكر جو اس وقت سرگودھا ڈویژن کا حصہ ہے۔ اس کا فاصلہ بھی ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر لیه کو ڈویژن بنا دیا جائے تو یہ مذکورہ تینوں اضلاع کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے انتہائی مفید رہے گا۔ لیکن اگر لیه کو جھنگ ڈویژن کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جسے عوام کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ جھنگ اور لیه کے درمیان ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت ہے۔ جبکہ اس سے قبل لیه ڈیرہ غازیخان ڈویژن کا حصہ ہے۔ جہاں بندہ دو سے اڑھائی گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جن مسائل اور پریشانیوں کی بنیاد پر لوگ الگ ڈویژن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ مجوزہ جھنگ ڈویژن میں شامل کئے جانے پر کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گی۔
یہی وجہ ہے لیه کی جھنگ ڈویژن میں شمولیت کی تجویز سامنے آنے کے بعد ضلع بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگوں میں بہت زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے۔ مختلف حلقوں کی طرف سے احتجاج کا اعلان بھی کیا جارہا ہے۔ مگر حیرت اور افسوس کا پہلو یہ ہے کہ لیه کو جھنگ ڈویژن کا حصہ بنانے کی خبریں سامنے آنے کے باوجود ضلع لیه کے اراکین اسمبلی کی طرف سے تادم تحریر کوئی عمل، رد عمل یا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ پہلے اراکین اسمبلی کی طرف سے یہ باور کرایا گیا تھا کہ لیه ڈویژن کی سمری ارسال کر دی گئی۔ جو بہت جلد منظور کر لی جائے گی۔ مگر سچ تو یہ ہے سوشل پر پوسٹیں کرنے اور عملی اقدام کرنے میں فرق ہوتا ہے۔
عملی اقدام وہ ہے جو جھنگ کے اراکین کی عملی کاوش سے نظر آرہا ہے۔ اگر ضلع لیه سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کوٹ ادو، بهكر اور تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لے کر وزیر اعلی پنجاب کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے تو شاید لیه کو جھنگ ڈویژن میں شامل کرنے کی تجویز سامنے نہ آتی۔ مگر اب بھی وقت ہے ضلع لیه سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور وزیر اعلی پنجاب کو زمینی حقائق سے آگاہ کریں۔
اگر لیه کو ڈویژن نہیں بنایا جاتا یا پھر لیه کو جھنگ ڈویژن میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ ہمارے اراکین اسمبلی کی نا صرف بہت بڑی ناکامی ہوگی بلکہ اس بات کا ثبوت ہوگی کہ یہ اراکین اسمبلی لیه کی نمائندگی کرنے کے لیے اہل نہیں۔ اگر اراکین اسمبلی، اسمبلی میں کردار ادا نہیں کر سکتے تو پھر استعفے دے کر عوام کے ساتھ سڑکوں پر آئیں۔ ورنہ لیه کے عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔