Karkardagi Ka Deewalia Pan Aur Awam
کارکردگی کا دیوالیہ پن اور عوام
پچھلے کچھ عرصے سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ان خبروں کو تقویت اس وقت ملی جب سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی خبریں سامنے آئیں اور اس کی عوام نے حکمرانوں کے محلات پر دهاوا بول کر لوٹ مار شروع کر دی اور حکمرانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں بڑھتے ہوئے معاشی عدم استحکام، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی قسط میں مسلسل تاخیر اور خاص طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی کمی سے دیوالیہ ہونے کے خدشات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے دیوالیہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق حکومت اور اپوزیشن کی بیان بازی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس بات کا تو سب اعتراف کرتے ہیں کہ ملک اس وقت سنگین ترین معاشی صورتحال سے دو چار ہے مگر اس کے باوجود کوئی بھی اپنی انا کے خول سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ان کے بیانات دیکھیں تو ہر جماعت کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک معاشی ایکسپرٹ موجود ہے۔ مگر معیشت کی حالت دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کوئی جماعت گلا دبا رہی ہے، کوئی گردن مروڑ رہی ہے، کوئی نس کاٹ رہی ہے اور کسی نے معیشت کی آکسیجن پر پاؤں رکھا ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ "ملک کی معاشی صورتحال کو نہ سنبھالا گیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ فوج اور عدلیہ کو سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ معاشی تباہی کے اثرات اداروں پر بھی پڑیں گے۔ معاشی تباہی سے بچنے کا واحد حل الیکشن ہے۔ " یہ بات تو واضح ہے کہ پی ڈی ایم نے جس اعتماد کے ساتھ عدم اعتماد کیا تھا وہ ہوا ہو چکا ہے اور تجربہ کاری کے زعم میں دعوؤں کے جو محلات بنائے تھے وہ سب کھنڈرات بن چکے ہیں اور تبدیلی سرکار سے لیکر سرکار کی تبدیلی تک عوام کے لیے سب کچھ ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔
مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ عوام سے ووٹ لیکر آنے والے سیاستدانوں نے بیساكهیوں کی سیاست سے آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ شاید وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ یہی تو ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے جب تک اسٹیبلشمنٹ ان کو گود لے کر انہیں فیڈر پلاتی رہتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہی اخلاقیات کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اور جیسے ہی اسٹیبلشمنٹ انہیں گود سے اتار کر فیڈر کھینچ لیتی ہے تو یہ کہتے ہیں یہ ظلم ہے آمریت ہے اور یہ غداری ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور آج ملک جس معاشی تباہی سے دوچار ہے اس کے ذمہ دار ماضی اور حال کے تمام حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہے۔ مگر عمران خان آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے جب تک سیاستدان اداروں کو کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے رہیں گے اس وقت تک سیاستدانوں کا کردار محض کٹھ پتلی جیسا ہی رہے گا۔
کل تک پی ٹی آئی یہ کردار ادا کرتی رہی ہے اور آج پی ڈی ایم اور خاص طور پر مسلم لیگ ن یہ کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں رگڑنا پڑیں کیونکہ وہ ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے ہم نے ریاست بچانے کے لیے سیاست قربان کر دی ہے۔
حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ حکمران اقتدار کی عیاشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی عوام پر احسان جتلاتے ہیں کہ ہم ملک اور قوم کی خاطر حکومت چلا رہے ہیں۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے عوام نے کوئی احتجاجی مظاہرے کئے تھے یا ان کو خطوط لکھے تھے کہ عمران خان کی حکومت ختم کر کے ہمیں بچاؤ؟
اس وقت تو پوری پی ڈی ایم سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کہا جاتا تھا جیسے ہی عمران خان کی حکومت ختم ہوگی ملک کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مگر آج کبھی کہتے ہیں پیسہ کہاں سے لائیں کبھی کہتے ہیں آئی ایم ایف بات نہیں سن رہا کبھی کہتے امداد مل گئی ہے کبھی کہتے ہیں ہم ڈیفالٹ کے دھانے پر ہیں کبھی کہتے ہیں ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے۔
ہماری سیاست کی ماضی کی یہ روایت رہی ہے کہ جو بات حقیقت ہوتی ہے وہ بتائی نہیں جاتی اور جو بتائی جاتی ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہمارے حکمران بار بار یہ بات دہراتے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا اور ہم نے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ تو ایک لمحے کو خوف ضرور آتا ہے مگر پھر دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللّه کرے ایسا ہی ہو جیسا کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ملک جس قسم کے حالات سے بھی دوچار ہو اس کی قیمت عوام کو ہی چکانی پڑتی ہے اور گزشتہ 75 سال سے وہ قیمت چکا رہے ہیں۔
اللّه کرے یہ ملک کبھی دیوالیہ نہ ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی اور حال کے حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ عوام ضرور دیوالیہ ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی نے مت مار دی ہے۔ لوگوں کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے، زندگی کی سانسیں بحال رکھنا مشکل ہو چکا ہے، ڈالر ایک بار پھر 230 کو کراس کر چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 250 میں بھی نہیں مل رہا۔
بیرون ممالک سے آنے والے خام مال کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے مقامی انڈسٹری بند ہو رہی ہے، گیس کا بحران شدید تر ہو چکا ہے، بیروزگاری کا یہ عالم ہے سال 2022 میں کم و پیش 7 لاکھ نوجوانوں نے بیرون ممالک کا رخ کیا جن میں ڈاکٹر، انجینئیر، آئی ٹی ایکسپرٹ سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں، غربت کا یہ عالم ہے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اللّه نہ کرے کبھی یہ ملک دیوالیہ ہو مگر ہر روز غریب عوام کو سکیم والا آٹا خریدنے کے لیے لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا دیکھتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے کہ اگر حکمرانوں نے اپنی سیاسی ذمہ داریوں، فرائض اور كاركردگی کے دیوالیہ پن کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب بھوک غربت بے روزگاری اور مہنگائی کے ستائے ان غریب عوام کے ہاتھ ہونگے اور اشرافیہ کے گریبان ہونگے اور پھر چھڑوانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔