Akhir Kab Tak (1)
آخر کب تک (1)
وزیر اعظم نے چکوال میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوۓ کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے این آر او مل جائے ان کو اگر کسی نے بھی این آر او دیا تو یہ ملک سے غداری ہوگی، غداری بھی ایسی کہ دشمن بھی معاف نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے بھی وزیر اعظم متعدد بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ وہ کرسی چھوڑ دیں گے مگر این آر او نہیں دیں گے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب وزیر اعظم نے این آر او نہ دینے کی بات نہ کی ہو تبدیلی کے بعد این آر او ایک ایسا لفظ ہے جو حکومتی حلقوں کی جانب سے سب سے زیادہ دہرایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم سے لیکر کابینہ تک حکومتی ترجمانوں سے لیکر مشیروں تک سب کے سب صبح شام این آر او نہ دینے کا ورد کرتے رہتے ہیں، جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے وہ این آر او لینا ہی نہیں چاہتے بلکہ حکومت مزاکرات کے لیے مختلف لوگوں کو بھیج کر خود ہم سے این آر او مانگ رہی ہے اور ہم اب حکومت کو این آر او نہیں دیں گے بلکہ اب حکومت کو گھر جانا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی وہ کون سی شق ہے جس کے تحت کسی ملزم یا مجرم کو این آر او دے کر ریلیف دیا جاسکتا ہے ماضی میں بھی جنرل پرویز مشرف نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے زریعے قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت 1986 سے 1999 تک کے تمام سیاسی اور کرپشن کے مقدمات ختم کر دئے گئے، مگر کسی بھی جمہوری حکومت میں اس کی مثال نہیں ملتی ایسی صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان آئین کے تحت کسی کو این آر او دے بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ یا پھر ان پر این آر او دینے کے حوالے سے کوئی دباؤ ہے یا ویسے ہی وہ این آر او نہ دینے کی بات کر کے اپوزیشن کو ڈراتے اور خود کو بہلاتے رہتے ہیں؟ یہ نا تو عوام کا مسئلہ ہے اور نا ہی عوام کا مطالبہ یہ بات بجا ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو ایک نئے پاکستان کے وعدے کی بنیاد پر کامیاب کرایا تھا جس میں کرپشن لوٹ مار کا خاتمہ، غیر جانبدارانہ احتساب، مہنگائی سے نجات، روزگار کی فراہمی، سماجی مساوات، حقوق کا تحفظ اور عام لوگوں کو ریلیف دینے کے وعدے شامل تھے مگر تحریک انصاف ان وعدوں کی تکمیل میں کہاں تک کامیاب ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج حکومت کی نصف مدت پوری ہونے کے بعد جب این آر او نہ دینے والوں کے سامنے ریلیف کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ہماری تو حکومت میں آنے کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی تین ماہ تو گورننس کو سمجھنے میں لگ گئے جبکہ ڈیڑھ سال تک اعداد و شمار کا پتا نہیں چل سکا۔
وزیر اعظم کے اس بیان کو صاف گوئی کہیں یا اعتراف شکست اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا فرق تو تب پڑتا ہے جب آپ عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے ایک ٹیم تیار کر لی گئی ہے۔ ہم مختصر کابینہ کے ساتھ ایسی بہترین ٹیم سامنے لائیں گے جو نہ صرف ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالے گی اندرونی بیرونی قرضوں سے نجات دلائے گی بلکہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی مگر اس بہترین ٹیم کی بہترین کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سالوں میں چار مرتبہ کابینہ میں رد و بدل کیا جا چکا ہے اور اس کابینہ کی مزید کارکردگی یہ ہے جو رکن جتنا بہتر انداز میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اسے اتنی ہی بہتر وزارت سونپ دی جاتی ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم کی جانب سے تیاری مکمل نہ ہونے کی بات ہے وہ اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ ایک تو تحریک انصاف اس سے پہلے بھی پانچ سال تک کے پی میں حکومت کر چکی تھی اور پھر اسد عمر کے علاوہ جتنے بھی لوگ کابینہ میں شامل ہیں وہ ماضی میں نہ صرف کسی نہ کسی حکومت میں شامل رہے بلکہ اہم وزارتیں بھی ان کے پاس رہیں یوں وہ نہ صرف حکومت کا بہتر تجربہ بھی رکھتے تھے بلکہ اندرونی صورتحال سے بھی بخوبی واقف تھے اور پھر عمران خان 22 سالہ جدوجہد کے باوجود اگر ملک کی اندرونی صورتحال کا تجزیہ نہیں کر سکے تو یہ ان کی جدوجہد پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر قوم کو بار بار یہ بتایا جاۓ کہ سابقہ حکمران چور تھے کرپٹ اور ناہل تھے انکی پالیسیاں غلط تھیں ملک کو قرضوں میں جکڑ گئے۔ یہ تمام باتیں ٹھیک ہیں مگر کیا تحریک انصاف کو اس لیے کامیاب کرایا گیا تھا کہ وہ پانچ سال تک این آر او نہ دینے کا اعلان کرتے رہیں بس چور اوے چور کا شور کرتے رہیں آپ بھلے این آر او نہ دیں مگر عوام کو تو ریلیف دیں آپ بے شک چوروں کا جینا دوبھر کر دیں مگر عوام کو تو سکھ کا سانس لینے دیں آپ بےشک لٹیروں کے گرد شکنجہ کسیں مگر عوام کی تو چیخیں نہ نکلوائیں آپ بے شک ملک لوٹنے والوں سے پائی پائی واپس کریں مگر عوام کے منہ سے نوالہ تو نہ چھینیں۔
حکومت اب اپنی نصف مدت پوری کر چکی ہے باقی کے اڑھائی سالوں میں آخری سال تو ویسے بھی انتخابات کی تیاری کا سال ہوتا ہے یوں حکومت کے پاس اپنے وعدوں کی تکمیل اور كاركرگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچتا ہے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تبدیلی والے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں آخر کب تک موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کے تابوت سامنے رکھ کر ماتم کرتی رہے گی کب تک ان کی نااہلی کی خاک اپنے سر میں ڈال کر خود کو مظلوم ثابت کرتی رہے گی کب تک ان کو برہنہ کر کے خود کو ڈھانپتی رہے گی کب تک ان کے جرم دکھا کر خود کو نیک ثابت کرتی رہے گی آخر کب تک چوروں کی کہانیاں سنا کر عوام کو لوریاں دیتی رہے گی اب بھی وقت ہے تحریک انصاف اپنے منشور اور وعدوں کی تکمیل کے لیے صرف احتساب کی باتیں نہ کرے بلکہ عملی طور پر احتساب کرے اور عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرے ورنہ بیساکھیوں کے زریعے خود کو مضبوط سمجھنے والوں کا حشر اس کے سامنے ہے جب وقت بدلتا ہے تو یہی بیساکھیاں لاٹھیاں بن کر حشر نشر کر دیتی ہیں۔