Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Sahil
  4. Dr. Syed Abdullah Ki Tanqeed Nigari

Dr. Syed Abdullah Ki Tanqeed Nigari

ڈاکٹر سید عبداللہ کی تنقید نگاری

سید محمد عبد اللہ 5 اپریل 1906ء کو مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔ انھوں نے لاہور سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد بی اے، ایم اے فارسی اور ایم اے عربی کی پڑھائی مکمل کی۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ اپنی زندگی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ مگر ان کی ملازمت کا دورانیہ زیادہ تر جامعہ پنجاب سے انسلاک میں گزرا۔ وہ ابتداء میں لیکچرر منتخب ہوئے اور پھر اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے اس کے علاوہ عربی اور فارسی کے شعبوں کی صدارت بھی کی۔

ڈاکٹر سید عبد اللہ نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی تصانیف بطور خاص تاریخ اردو اور ادبی تنقید سے علاقہ رکھتی ہیں۔ سید عبد اللہ تقریباً 30 کتابوں کے مصنف تھے۔ آخر کار 14 اگست 1986ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ ان کی چیدہ چیدہ تصانیف درجہ ذیل ہیں۔

ولی سے اقبال تک، سرسید اور ان کے رفقاکی نثر کا تنقیدی جائزہ، وجہی سے عبد الحق تک، نقد میر، رمز اقبال، اعجازِ اقبال، نقد میر، مباحث، نئے اور پرانے چراغ، اشاراتِ تنقید، اطرافِ غالب وغیرہ۔

اشارات تنقید میں ڈاکٹر سید عبد اللہ کے تنقیدی نظریات واضح طور پر ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹر سید عبد اللہ کے بیشتر مضامین کلاسیکی ادب کے متعلق ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سید عبد اللہ کا تنقیدی زاویہ کلاسیکی تھا لیکن ان کی تنقید جدید اصولوں پر بھی اُستوار ہے۔

اشارات تنقید میں ادب و تنقید کے مباحث کے علاوہ مشرق و مغرب کی تنقید کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ مغربی تنقید کے حصے میں افلاطون (نظریہ الہام، شاعری پر اعتراضات، شاعری کی نقالی، شاعر کی جہالت)، ارسطو (المیہ، المیہ کے تاثر کے وسائل، اور ارسطو کے اہم مباحث کی اجمالی تشریح)، لان جائنس (ادب کی قدر کا نیا معیار، ادب پارے کی ارفعیت)، سر فلپ سڈنی (سڈنی اور نظریہ امکان وقوع، ادب پارے کی تاثیر)، بن جانس (نشاۃ ثانیہ کے دوران قدیم کلاسیکی نظم و ضبط کی بحالی، شاعر قدرتی صلاحیت کا مالک)، بوئیلو (فرانسیسی ادب میں کلاسیکیت کا علم بردار، قواعد و اسالیب کی پابندی)، ڈرائیڈن (ڈرامائی شاعری کو دلکش و فرحت بخش تصویر، رسالہ ایسی اینڈ ڈرامیٹیک پوئٹری)، جانسن (ڈرائیڈن کے تصورات کی توسیع)، ورڈورتھ(انسان اور فطرت دونوں ہمراز، شاعری کو علم کہا، شاعری میں عام بول چال کی زبان پر زور)، کولرج (تخیل، اولین متخیلہ ثانوی متخیلہ، نظم اور نثر میں فرق)، شیلے (شاعری بہترین دماغوں اور دلوں کی مسرت سے بھرپور لمحوں کی روداد، شاعری الوہی چیز)، ساں بُوا (ادب ایک قطعی علم، نقاد کا طریقہ کار سائنسی، نقاد ادیب بھی ہوتا ہے)، آرنلڈ (ادب تنقید حیات، نقاد کت فرائض)، رسکن (فن اور اخلاقیات، فن کار معلم اخلاق)، کروشے (جمالیات، مسرت انبساط، فن کے حوالے سے بحث)، آئی اے رچرڈ (شاعری کی اہمیت پر بحث، شاعری اور نفسیات، سائنس اور شاعری میں فرق)، ٹی ایس ایلیٹ (کلاسیکیت، شاعر اور نقاد، ادب میں روایت کی اہمیت، شاعری کا سماجی منصب، ادب اور کلچر) شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اشارات تنقید میں ڈاکٹر سید عبد اللہ مشرقی تنقید کی تاریخ پر بحث بھی کرتے ہیں اور مشرقی ناقدین کے تنقیدی نظریات کو سامنے لانے کی کوشش بھی۔ مشرقی تنقید پر بحث کرتے ہوئے وہ بلاغت کے متعلق گفتگو کرتے ہیں کہ مشرقیت فن کا نام ہے۔ اس کے بعد عرب کے ممتاز ناقدین جن میں جاحظ (عقل و منطق پر بحث، ارسطو سے متاثر، ادب کی تاثیر، بلاغت کے قائل)، ابن قتیبہ (شعر کی ماہیت، عملی تنقید کے نمونے، شعر میں اصلیت کے قائل)، قدامہ بن جعفر (خارجی و معنوی خوبیوں پر بحث، شعر میں کذب اور مبالغہ) ابن رشیق (شعر کے لیے لفظ، معنی، وزن، قافیہ ضروری)، ابن خلدون (شعر اعلی تخلیقی عمل، ادب ریاضت اور اکتساب کا طالب)، آزاد (آب حیات تذکرہ و تنقید، عملی تنقید کے نمونے)، الطاف حسین حالی (مقدمہ شعر و شاعری، نظریاتی و عملی تنقید کے نمونے)، امداد امام اثر (کاشف الحقائق)، مولانا شبلی نعمانی (شعر العجم، جمالیاتی تنقید، محاکات)، عبد الرحمن بجنوری، مہدی افادی، وحید الدین سلیم، محی الدین قادری زور، نیاز فتح پوری، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد، احتشام حسین، حسن عسکری، ممتاز حسین شامل ہیں۔

تنقیدکا طریقہ کار:

ڈاکٹر سید عبداللہ کی تنقیدکا طریقہ کار سائنٹفک ہے۔ (سائنٹفک تنقید: وہ تنقید جس میں تاثر، جذبہ اور تخیل کو ایک طرف رکھ کر عقلی و تجرباتی اصولوں کے تحت ادب پارے کا جائزہ لیا جاتا ہے یا سائنسی علوم کو سامنے رکھ کر تنقید کی جاتی ہے) سید عبد اللہ کی تنقید بھی سائنسی ہے اور عقلی و تجرباتی اصولوں کے مطابق ادب پارے کی پرکھ کو اہمیت دیتے ہیں۔

اشارات تنقید میں ادب کے حوالے سے سید عبد اللہ یوں رقم طراز ہیں"ادب وہ فن لطیف ہے، جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی وشخصیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی و خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل قوت مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے مسرت بخش، حسین اور مؤثر پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع و قاری کا جذبہ و تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہو"۔

ادب ایک فن لطیف: اس سے مراد یہ ہے کہ سید عبد اللہ ادب کو فنون کا حصہ مانتے ہیں اور ان فنون کا حصہ جو ہمیں روحانی مسرت و اطمینان دیں یعنی ڈاکٹر صاحب ادب کے جمالیاتی تجربے اور مسرت کے قائل ہیں۔

جذبات و افکار کا ذکر: جذبات و افکار سے مراد یہ ہے کہ ادب میں فن کے ساتھ ساتھ فکر بھی شامل ہوگی۔

نفسیاتی و شخصیاتی خصائص: نفسیاتی و شخصیاتی خصائص سے مراد ادب میں ادیب کی ذات بھی سامنے آنی چاہیے یہاں ڈاکٹر صاحب ادب میں نفسیات کو بھی شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسانی سماج و انسانی ذات ادب سے وابستہ ہے اس طرح جب کوئی فن پارہ سامنے آتا ہے تو اس میں ادیب کی ذات اور نفسیاتی و شخصیاتی خصائص بھی سامنے آتے ہیں۔

الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی و خارجی حقائق کی ترجمانی و تنقید: سید عبد اللہ ادب میں لفظیات اور تحریر کے قائل ہے نظم اور نثر کے نہیں۔ دوسرے ناقدین نظم اور نثر کو ادب کی اقسام سمجھتے ہیں لیکن سید عبد اللہ کے مطابق نظم اور نثر ادب کے وسائل و ذرائع ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبد اللہ والٹیر پیٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادب کی دو اقسام ہیں۔

1) اچھا ادب (وہ ادب جس میں حسن اور خوبصورتی ہو یعنی صرف فنی خوبصورتی ہو)

2) اعلیٰ ادب (وہ ادب جس میں فن کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ فکر بھی عظیم ہو)

اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ "ہر ادب کا کارنامہ نظم میں ہوگا یا پھر نثر میں لہٰذا نظم اور نثر ادب کے وسائل اظہار ہیں نہ کہ اقسام"۔

اسلوب کے حوالے سے بحث: ڈاکٹر سید عبد اللہ اسلوب کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ادب کا اسلوب مؤثر ہونا چاہیے اور فن کے ساتھ ساتھ فکر پر بھی توجہ دینی چاہیے

ادب کی پیشکش: ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں کہ ادب کی پیشکش ایسی ہونی چاہیے کہ اس کو پڑھ کر قاری بھی اپنے سماج اور معاشرے سے اسی طرح متاثر ہو جس طرح ادیب سماج اور معاشرے سے متاثر ہوا تھا اور فن پارہ پڑھ کر قاری کو وہ فن پارہ اپنا تجربہ محسوس ہو۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا

ڈاکٹر صاحب ادب اس کو سمجھتے ہیں کہ جس کو پڑھ کے ادیب اور قاری ہم خیال ہوجائے۔ یعنی ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کو زندگی اور معاشرے کا ترجمان بھی سمجھتے ہیں اور اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

ادب میں حسن: حسن کا معیار ہر شخص کا الگ الگ ہے کوئی حسن کو خوبصورتی اور جمال کہتے ہیں تو کوئی حسن کو دیکھنے والے کی آنکھ تک محدود کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب حسن کو معنی اظہار کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں"حسن کی نمود کا تعلق جتنا ادب پارے کے موضوع سے ہیں اتنا ہی اس کی صورت اور اس کے انداز اظہار سے ہیں"۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ادب میں فن اور فکر دونوں کے قائل ہیں۔

تنقید کے حوالے سے بحث:

تنقید: ڈاکٹر صاحب کے مطابق تنقید نگاری کا مقصد ادب کی تفہیم کرنا اور اس کی قدریں متعین کرنا ہے۔

ڈاکٹر سید عبد اللہ تنقید کے مقصد کے حوالے سے بحث کرتے ہیں کہ تنقید کا مقصد کسی ادب پارے کی خوبیاں، خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرنا اور ادب کے لئے اصول وضع کرنا ہے۔ اصول وضع کرنا فلسفے کا کام ہے لیکن ڈاکٹر صاحب اس کو تنقید کے ساتھ جوڑتے ہیں اور تنقید کو سائنس بھی کہتے ہیں کیوں کہ ان کا اپنا طریقہ کار سائنٹفک تھا۔

تنقید کا کام: ڈاکٹر صاحب کے مطابق تنقید کا کام مجموعی رائے دینا ہے یعنی تنقید مجموعی رائے دے گی کہ فن پارہ کیا ہے؟ کیسا ہے؟ اور اس کے علاوہ کسی فن پارے پر دوسرے ادبیات کا اثر اور ان ادبیات کے ساتھ تقابل کرنا بھی تنقید کا کام ہے۔ بہ الفاظ مختصر تنقید کا کام تشریح کرنا، تجزیہ کرنا، نئے حقائق کو سامنے لانا، ادب پارے پر رائے دینا اور محاکمہ کرنا ہے۔

نقاد کے فرائض:

ڈاکٹر صاحب نقاد کے فرائض کے حوالے سے کہتے ہیں کہ

نقاد کی شخصیت ہمہ جہت ہوگی۔ ہر علم کے ساتھ نقاد کی وابستگی ضروری ہے۔ نقاد ہر فن مولا ہوگا۔ نقاد کو ہر علم کا احاطہ کرنا ہوگا۔ نقاد تنقید کرتے وقت داخل اور خارج (فن اور فکر) دونوں کو مروجہ اصولوں کے تحت یا پھر اپنے بنائے ہوئے اصولوں کو سامنے رکھ کر فن پارے کا تجزیہ کرے گا۔

اسلوب کے حوالے سے بحث:

عام طور اسلوب کو کسی تحریر کی خارجی صورت کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب اسلوب کو کسی مصنف کی ذات کا عکس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں"اسلوب مصنف کی شخصیت کا عکس ہے جو الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے"۔

اسلوب کے عناصر:

ڈاکٹر صاحب اسلوب کے تین عناصر بیان کرتے ہیں۔

پیرائے بیان: پیرائے بیان سے مراد یہ ہے کہ شاعر یا ادیب خیالات کو جس ڈھنگ سے پیش کرتاہے۔ اس سے مراد کسی شاعر کا خاص انداز ہے۔

اصول ذات: ڈاکٹر سید عبد اللہ کہتے ہیں کہ شاعر یا ادیب کو اپنے لئے اصول بنانے چاہئے اور پھر ان کے مطابق شاعری کرنی چاہیے۔ جس طرح علامہ اقبال نے اسلامی فلسفے، اسلامی تلمیحات اور فارسی لفظیات کو سامنے رکھا اور اس سے اپنے لے اصول وضع کیے اس طرح شعراء کو اپنے لئے اصول وضع کرنے چاہئے۔

انفرادی خصوصیت: ڈاکٹر سید عبد اللہ کے مطابق جب ایک شاعر اپنے لیے اصول وضع کرتا ہے اور اس کے مطابق شاعری کرتا ہے تو اس سے شاعر کی انفرادیت سامنے آتی ہے اور اسلوب میں دلکشی آتی ہے۔

4) شاعری کے حوالے سے بحث:

ڈاکٹر سید عبد اللہ شاعری کو امر روحانی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعری نہ تو الہامی قوت ہے اور نہ ہی نقالی ہے بلکہ شاعری ان دونوں کا مرکب ہے۔ اور ایک روحانی حکم ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعری کو بھید بھی کہتے ہیں اور بھید کی کوئی تشریح ممکن نہیں۔ اس حوالے سے کہتے ہیں"تخیل میں محفوظ جملہ تصاویر اشیاء، فوری طور سے موجود احساسات اور وہ احساسات جن کی صرف یادیں باقی رہ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ وہ مختلف النوع افکارو خیالات جن سے شاعر کبھی متاثر یا مستفید ہوا وہ شاعری ہے"۔

شاعری اور سماج کے حوالے سے بحث:

آخر میں ڈاکٹر سید عبد اللہ شاعری اور سماج کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاعری سے ہم کسی ایک موضوع کا مطالبہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس سے صرف تلقین کی امید لگائی جاسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ "آخر کار ادیب ماحول کے دل شکن حالات سے اپنے آپ کو منقطع کیسے کر سکتا ہے۔ پھر ذاتی زندگی میں الم خاص ناگزیر ہے۔ ان چیزوں کو شاعر یا ادیب کس طرح نظر انداز کر سکتا ہے۔ اسے اظہار غم کی کچھ تو اجازت ملنی چاہیے۔ اگر آپ شاعری سے نیکی کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ سماج و معاشرے میں نیکی کی تبلیغ کریں"۔

یعنی اگر شاعر سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی کی تبلیغ کرے تو اس کے لیے پھر سماج میں نیکی کو عام کرنا ہوگا کیوں کہ شاعر صرف انہی مضامین یا موضوعات کو پیش کرتا جو سماج اور معاشرے میں ہوتے ہیں۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari