Tuesday, 16 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Kya Aaj Ka Alam e Deen Apni Asal Meeras Ka Ameen Hai?

Kya Aaj Ka Alam e Deen Apni Asal Meeras Ka Ameen Hai?

کیا آج کا عالمِ دین اپنی اصل میراث کا امین ہے؟

جب علم و عرفان کا سورج افق پر جلوہ گر ہوا تھا، تب اسلام نے دنیا کو ایک ایسی کتاب سے آشنا کیا جو محض عقائد کا مجموعہ نہ تھی، بلکہ تہذیب کا منشور اور انسانیت کی معراج تھی۔ اس آفاقی ضابطے کی تشریح اور ترسیل کا بوجھ صدیوں تک ان ہستیوں نے اٹھایا جنہیں ہم علماء، فضلاء یا بالعموم "ملا" کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا منصب ایک مبلغ کا نہیں، بلکہ روحانی معمار کا تھا، ایک ایسا معمار جس کا ہتھیار حکمت اور جس کی بنیاد تقویٰ ہو۔ مگر آج، جب زمانہ برق رفتاری سے بدل چکا ہے اور ہماری زندگیوں پر مادہ پرستی کی بے لگام دوڑ سایہ فگن ہے، تو یہ سوال روح میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے کہ ہمارے "آج کے عالمِ دین" کا کردار کیا ہے اور اس کا ہمارے ابدی دین، ہمارا اسلام، پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

​یہ اخلاقی بحران اور ذاتی مفادات کا سیلاب ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور افسوس کہ علم و دین کی مسندیں بھی اس کی زد میں آ چکی ہیں۔ عالمِ دین کا منبر جو کبھی خشیت الٰہی اور سادگی کی علامت تھا، آج کی تیز رفتار دنیا میں سوشل میڈیا کی چکاچوند اور عجلت پسند کلچر کی نذر ہو چکا ہے۔ دین کے لیے جدوجہد کرنے والا آج ایک "کنٹینٹ کریئیٹر" کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے ہر حال میں سستی شہرت، زیادہ ویوز اور متنازع موضوعات کی تلاش رہتی ہے۔ یہ فضا ان کے دلوں سے قناعت اور فقر کا وہ جوہر چھین رہی ہے جو کبھی ان کی اصل قوت تھا۔ حقیقی علماء کا کمال ان کے باطن کی پاکیزگی میں پنہاں تھا، مگر آج کا رجحان ظاہر کی آرائش اور دنیاوی تزک و احتشام کی طرف زیادہ ہے۔ جب دین کی آڑ میں دولت کی فراوانی اور لگژری لائف اسٹائل کی نمائش ہونے لگے، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا پرستی نے اس مقدس منصب کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ یہ محض ایک فرد کا انحراف نہیں، بلکہ روحانیت کی شکست ہے۔

​معاشرہ دراصل مذہب کی عملی شکل ہوتا ہے۔ جب "آج کا عالمِ دین"، جو عوام کا روحانی رہبر ہے، اپنی سمت کھو دے تو اس کے نتائج پورے سماج کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ وہ گہرا زخم ہے جو ہمارے معاشرتی حسن کو پارہ پارہ کر رہا ہے۔ اسلام اخوت اور وحدت کا درس لے کر آیا تھا، مگر آج اسی اسلام کے نام پر فرقہ واریت اور مسلکی عصبیت کی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ کئی علماء کی تقاریر کا محور اب دین کی اصل دعوت نہیں، بلکہ مخالف مسلک کی تضحیک اور تنقید بن چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اتحاد کے بجائے انتشار پھیلانا ہی ان کا اوّلین فریضہ ہے۔ ہمارا اسلام مطالعہ، غور و فکر اور تحقیق کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ بہت سے مذہبی مراکز میں اندھی تقلید کو فروغ دیا جاتا ہے اور آزادانہ فکری اپروچ کو بدعت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس جمود کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل دین سے دور ہو رہی ہے، کیونکہ وہ زندگی کے جدید مسائل کا حل فرسودہ تشریحات میں نہیں پاتی۔ یہ رویہ معاشرے کو عقلی بانجھ پن کی طرف لے جا رہا ہے۔ جب معاشرہ غربت، ناانصافی اور جہالت کے بوجھ تلے دبا ہو، تو امام کا کام یہ ہے کہ وہ معاشرتی انصاف اور اخلاقی اصلاحات کی بات کرے۔ مگر آج، بہت سے علماء زندگی کے بڑے مسائل کو چھوڑ کر غیر ضروری فروعی اختلافات اور ایسے چھوٹے فقہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کا براہ راست تعلق معاشرتی فلاح سے بہت کم ہے۔

​یہ ناگزیر ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ ہمارا اسلام کسی فرد یا مسلک کا غلام نہیں، بلکہ وہ رحمت للعالمین کا ابدی پیغام ہے۔ یہ دین آج بھی اپنی اصلی روح میں بے مثال ہے۔ وہ علماء جو آج بھی خاموشی، اخلاص اور سادگی کے ساتھ علم و عمل کی روشنی پھیلا رہے ہیں، وہی ہمارے دین کی اصل میراث کے امین ہیں۔ ضرورت ہے کہ "آج کا عالمِ دین" اس دنیا پرستی سے نکل کر اپنے ضمیر کا محاسبہ کرے۔ اسے رسول اکرم ﷺ کی سادگی، خلفائے راشدین کے عدل اور صوفیاء کرام کے عشق و محبت کے اسلوب کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ اسلام ایک حقیقی قوت ہے جسے کسی ظاہری طاقت کی ضرورت نہیں۔ البتہ، اگر اس قوت کی تشریح کرنے والا کردار اپنی اخلاقی بلندی کو برقرار نہیں رکھ پائے گا، تو وہ معاشرے میں اعتماد کا فقدان پیدا کرے گا۔ آج کے عالمِ دین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی ذمہ داری شخصی برانڈنگ یا فرقہ پرستی نہیں، بلکہ اسلام کے آفاقی حسن کو بغیر کسی آلودگی کے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ وگرنہ یہ دنیا پرستی کا سیلاب دین کے منصب کی عظمت کو خسارے میں ڈال دے گا۔

Check Also

Zindagi Ke Mohsin Agar Mil Jayen

By Khateeb Ahmad