Jab Saqafat Marti Hai To Adeeb Kya Likhta Hai?
جب ثقافت مرتی ہے تو ادیب کیا لکھتا ہے؟

ہم ایک ایسے فکری اور تہذیبی اضمحلال کے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہماری مقامی زبانوں کی اصلی مٹھاس اور مزاج میں غیر ملکی الفاظ کا کھوٹ اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ خالص تہذیبی چاشنی کو پہچاننا محال ہوگیا ہے۔ یہ محض زبان کا سطحی مسئلہ نہیں، بلکہ درحقیقت ہماری تہذیبی شناخت اور وجود کے زوال کا مظہر ہے۔ جب ہماری گلیاں، بازار اور یہاں تک کہ ہمارے گھر بھی مغرب کی اندھی تقلید کے زیرِ اثر آ جائیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادیب کا قلم اس وقت خاموش ہو جائے گا؟ یا وہ اس عظیم نوحے کو ایک تاریخی دستاویز کی شکل دے گا؟ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کا اردو ادیب، اس وسیع تہذیبی زوال پر یا تو مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، یا پھر تضاد یہ ہے کہ وہ خود شعوری یا لاشعوری طور پر اسی زوال کی داستان کا ایک کردار بن چکا ہے۔
ہمارا ایک بنیادی مسئلہ "جدیدیت" (Modernity) کے تصور کو غلط تناظر میں سمجھنے کا ہے۔ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ جدید ہونے کا مطلب اپنی تہذیبی جڑوں سے مکمل انقطاع ہے۔ نتیجتاً، ناولوں، ڈراموں اور شاعری میں تہذیبی روایت کی خوبصورتی اور معنویت کو محض قدامت پرستی اور رجعت کا نام دے کر رد کر دیا گیا ہے۔ اردو ادب کا وہ شاندار اور متوازن دور کہاں ہے جب ایک طرف میرؔ و غالبؔ کی کلاسیکی عظمت تھی اور دوسری طرف نذیر احمد کی اصلاحی اور سادہ تحریریں معاشرے کی رہنمائی کر رہی تھیں۔ آج کا ادب نہ تو تہذیبی روایت کا مکمل وارث ہے اور نہ ہی جدید معاشرتی مسائل کا صحیح عکاس۔ یہ ایک ادھوری صورتحال ہے، ایک ایسا فکری جمود جس میں بہترین ادبی صلاحیتیں بھی گھٹ کر ضائع ہو رہی ہیں۔
اس کے علاوہ، آج کا نوجوان، جس کے ہاتھ میں کبھی فیضؔ، فرازؔ یا عصمتؔ چغتائی کا کوئی فکری مجموعہ ہوا کرتا تھا، وہ اب ڈیجیٹل سکرین کی چکاچوند اور فوری تسکین میں گم ہے۔ ادب کو ایک سست، پرانا اور غیر ضروری مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نازک موڑ پر ادیب کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیا اس نے کوشش کی کہ وہ اپنے گہرے اور ضروری پیغام کو اس تیز رفتار دنیا کی زبان اور میڈیم میں ڈھالے؟ جواب نفی میں ہے! ادیب آج بھی اسی بوجھل، پیچیدہ اور پُراسرار زبان میں لکھ رہا ہے جسے عام قاری سمجھنے یا پڑھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ ادب اس وقت تک زندہ اور مؤثر رہتا ہے جب تک وہ عام آدمی کے دل کی دھڑکن اور روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بنے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ادبی حلقوں کو بھی مخصوص گروہوں اور مفادات کی میراث بنا دیا ہے۔ سچی تخلیق اور حقیقی صلاحیت کو وہ مقام نہیں ملتا جو تنقیدی تعلقات اور چاپلوسی کو حاصل ہے۔ آج اگر کوئی مصنف ندرت اور انفرادیت لیے ہوئے قلم اٹھاتا ہے تو اسے فوراً رائج ادبی بتوں کی نفی کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ ادبی اقربا پروری (Nepotism) درحقیقت نئے اور باصلاحیت خون کو اس وراثت میں شامل ہونے سے روک کر ہماری پوری نسل کو اس عظیم ثقافتی ورثے سے محروم کر رہی ہے جس کی بنیادیں سچائی، تخلیقی آزادی اور عوامی وابستگی پر رکھی گئی تھیں۔ یہ ہماری ثقافت کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔
ہم ایک ایسے اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں دو ٹوک فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم اپنی قومی ثقافت اور زبان کو محض تاریخ کی الماری میں بند کرکے ایک بھولی بسری یاد بنا دیں گے، یا اسے وقت کے ساتھ چلنے والا ایک زندہ اور متحرک دھارا بنائیں گے؟ ادیب کو چاہیے کہ وہ اپنی تنہائی کی کرسی سے اٹھے، لوگوں کے درمیان جائے اور ان کی حقیقی آرزوؤں، دکھوں اور پریشانیوں کو اپنے قلم کی نوک پر سجائے اور ترجمانی کرے۔ جب تک ادب میں جرأتِ سچائی اور عوام سے حقیقی محبت کا رنگ شامل نہیں ہوگا، ہماری یہ شاندار ثقافتی عمارت صرف ایک خوش کن خواب بن کر رہ جائے گی۔ ادب کو صرف ذاتی تسکین یا فنی اظہار کے لیے نہیں، بلکہ تہذیبی اور سنسکرتی کی بقا کے لیے لکھنا از حد ضروری ہے۔

