Dukhon Se Roshni Tak Ka Safar
دکھوں سے روشنی تک کا سفر

زندگی کبھی کبھی ایسے موڑ پر لے آتی ہے جہاں ہر امید دم توڑتی نظر آتی ہے۔ جب سر سے شوہر کا سایہ اٹھ جائے اور پھر باپ کی شفقت بھی نہ رہے، تو دنیا اندھیر لگنے لگتی ہے۔ ایسے میں، ایک عام عورت ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے زخموں کو دوسروں کی مرہم پٹی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ میری ملاقات ایک ایسی ہی غیر معمولی خاتون، صائمہ سے ہوئی، جن کی کہانی سن کر دل انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے۔
یہ ملاقات خون کے عطیے کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ ان کے پڑوسی کو خون کی اشد ضرورت تھی اور میں وہاں خون دینے پہنچا۔ وہیں مجھے اس عظیم ہستی کے بارے میں پتا چلا۔ صائمہ کے شوہر اور والد دونوں اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس دکھ کو جھیلنے کے بعد، جہاں اکثر لوگ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، انہوں نے ایک یتیم خانہ کھول ڈالا۔ اپنی ذات، اپنے دکھ، سب کچھ بھلا کر وہ آج پچاس سے زائد یتیم بچوں کی پرورش اور کفالت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ سب وہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر کر رہی ہیں!
ان کی سادگی، ان کا اخلاق اور انسانیت کے لیے ان کا والہانہ جذبہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ان کی باتوں میں کوئی بناوٹ نہیں، کوئی دکھاوا نہیں، بس خلوص اور عزم ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کے لیے جینا بنا لیا ہے۔
آج کی نوجوان نسل جو بظاہر سوشل میڈیا کے جھمیلوں اور مادی دنیا کی چکاچوند میں کھوئی نظر آتی ہے، اسے ایسی کہانیاں سننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ کہانی صرف ایک بیوہ کی نہیں، یہ انسانیت کی فتح کی کہانی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دکھ اور محرومی بھی آپ کو توڑ نہیں سکتے اگر آپ کا ارادہ مضبوط ہو اور آپ کا دل خدمتِ خلق کے لیے دھڑکتا ہو۔
عزیز نوجوانو! آج کے دور میں جب بہت سے نوجوان غلط کاموں اور بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں، انہیں ایک ایسے سبق اور پیغام کی اشد ضرورت ہے جو انہیں سیدھی راہ دکھا سکے۔ صائمہ کی کہانی ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ زندگی صرف اپنے لیے جینے کا نام نہیں، یہ دوسروں کے لیے کچھ کر دکھانے کا نام ہے۔ یہ صرف خواب دیکھنے کا نام نہیں، یہ ان خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا نام ہے۔ صائمہ کی زندگی سے سبق سیکھیں کہ کیسے ایک فرد اپنے محدود وسائل کے باوجود بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، اپنے اندر کے انسان کو جگائیں اور اس معاشرے کو وہ کچھ دیں جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔
یتیموں کی کفالت نہ صرف انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے بلکہ ہمارے دین اسلام نے بھی اس پر بے حد زور دیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے: "میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں (آپ ﷺ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا)"۔ (صحیح بخاری)
یہ حدیث مبارکہ ہمیں بتاتی ہے کہ یتیم کی کفالت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کتنا بلند مقام عطا فرماتے ہیں۔ صائمہ جیسی خواتین اسی عظیم سنت پر عمل پیرا ہیں۔ وہ ان بے سہارا بچوں کو نہ صرف چھت اور خوراک دے رہی ہیں بلکہ انہیں محبت، تعلیم اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دے رہی ہیں۔
جوانو! اس پیغام کو سمجھو۔ اپنی توانائیوں کو منفی کاموں میں صرف کرنے کے بجائے، انہیں ایسے نیک مقاصد کے لیے استعمال کرو جو نہ صرف تمہیں دلی سکون دیں بلکہ آخرت میں بھی تمہاری نجات کا ذریعہ بنیں۔ یتیموں، غریبوں اور بے سہاروں کی مدد کرنا انسانیت کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ آج بھی تمہارے ارد گرد ایسے بہت سے بچے ہوں گے جنہیں تمہاری توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیں، اصلی کامیابی بینک بیلنس اور ظاہری چمک دمک میں نہیں، بلکہ اس سکون میں ہے جو دوسروں کی مدد کرکے ملتا ہے۔ یہ سکون بے مثال ہے اور اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔ اٹھو اور انسانیت کی شمع بنو! اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کرو اور دیکھو کہ کیسے تمہاری چھوٹی سی کوشش بھی کسی کی زندگی میں روشنی بھر سکتی ہے۔

