Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Dil Ka Bojh, Khoon Ki Pukar

Dil Ka Bojh, Khoon Ki Pukar

دل کا بوجھ، خون کی پکار

زندگی کی گہما گہمی میں ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں، ہمیں زندگی کے مقصد پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ میں آج بھی چاچو نصیر کے بیٹے علی رضا کو یاد کرتا ہوں، اس جوان بچے کو جس کی آنکھوں میں ہزاروں خواب تھے، مگر جس کی زندگی ایک ایسے مرض کے ہاتھوں میں تھی جسے ہم تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔

مجھے یاد ہے، وہ دن جب میں یونیورسٹی میں بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کا وائس پریزیڈنٹ تھا۔ علی رضا کے لیے خون کا انتظام کرنا ایک فرض بھی تھا اور ایک اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اس کا بلڈ گروپ O-negative تھا، جو کہ بہت نایاب ہوتا ہے۔ کلاس رومز میں جا کر میں طلباء سے گزارش کرتا تھا، انہیں اس مرض کی سنگینی سے آگاہ کرتا تھا۔ اس وقت میرے الفاظ محض ایک اپیل نہیں تھے، بلکہ ایک فریاد تھی، ایک بے بسی کی پکار۔ ہر بار جب کوئی طالب علم خون کا عطیہ دیتا، تو مجھے لگتا تھا جیسے ہم نے علی رضا کی زندگی میں ایک اور دن کا اضافہ کر دیا۔

تھیلیسیمیا صرف ایک بیماری نہیں ہے۔ یہ ان خاندانوں کے لیے ایک مسلسل آزمائش ہے جو اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو تکلیف دہ بھی ہے اور مالی طور پر بوجھل بھی۔ ان بچوں کو ہر کچھ ہفتوں بعد خون کی منتقلی (blood transfusion) کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ عمل ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ علی رضا جیسے بچے جو اس مرض کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک عام بچپن نہیں مل پاتا۔ وہ کھیل کے میدانوں میں دوڑنے کے بجائے ہسپتالوں میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان کا جسم کمزور ہوتا ہے، مگر ان کی روح میں زندہ رہنے کی ایک غیر معمولی تڑپ ہوتی ہے۔

یہ مرض ایک موروثی خون کی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتی ہے جب جسم میں ہیموگلوبن کی پیداوار میں کمی یا خرابی ہو جاتی ہے۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیوں کا وہ اہم جز ہے جو جسم کے تمام حصوں تک آکسیجن پہنچاتا ہے۔ ہیموگلوبن کی کمی کی وجہ سے خون کے سرخ خلیے تیزی سے ٹوٹنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون کی شدید کمی (anemia) ہو جاتی ہے۔ اس کی دو بڑی اقسام ہیں: تھیلیسیمیا میجر جو کہ شدید ترین قسم ہے اور جس میں باقاعدہ خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے اور تھیلیسیمیا مائنر جس میں فرد بیماری کا کیریئر ہوتا ہے اور اس میں بظاہر کوئی علامات نہیں ہوتیں، لیکن اس کے بچوں میں یہ مرض منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ بہت ضروری ہے۔

چاچو نصیر آج بھی مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے ہیں۔ ان کی محبت میں ایک باپ کی بے بسی اور دکھ صاف نظر آتا ہے۔ وہ اکثر مجھے فون کرتے ہیں، علی رضا کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ایک سوال پوشیدہ ہوتا ہے: "یہ بیماری کیوں بنی ہے جو معصوم بچوں کی جان لے لیتی ہے؟" اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے۔ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ ہم انسانوں کو اس کا سہارا بننا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے جاگیں۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو صرف خون کی ضرورت نہیں، انہیں ہماری توجہ، ہماری ہمدردی اور ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے۔ آپ کا ایک بلڈ ڈونیشن کسی کی زندگی بچا سکتا ہے۔ یہ صرف خون کا ایک قطرہ نہیں، بلکہ امید کی کرن ہے، زندگی کا ایک نیا دن ہے اور ایک ماں کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے نہ صرف کسی کی جان بچتی ہے، بلکہ اس کے اپنے بھی کئی فوائد ہیں۔ خون عطیہ کرنے سے پہلے آپ کی ایک چھوٹی سی طبی جانچ ہوتی ہے، جس میں آپ کی صحت کے بارے میں اہم معلومات ملتی ہیں۔ اس سے جسم میں لوہے کی سطح متوازن رہتی ہے اور نئے خون کے خلیے بننے کا عمل تیز ہوتا ہے، جس سے آپ کی مجموعی صحت بہتر ہوتی ہے۔

آئیے، ہم ایسے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ان کے لیے آواز اٹھائیں، ان کے علاج میں مدد کریں اور ان کے خاندانوں کا سہارا بنیں۔ ان معصوموں کی زندگیوں میں خوشیوں کے رنگ بھرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ کیونکہ زندگی صرف لینے کا نام نہیں، بلکہ دینے کا بھی نام ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَمَنُ أَحُيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحُيَا النَّاسَ جَمِيعًا" جس کا مطلب ہے کہ جس نے کسی ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کردیا۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "خَيُرُ النَّاسِ أَنُفَعُهُمُ لِلنَّاسِ" یعنی لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ ان ارشادات کی روشنی میں، یہ ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ ہم تھیلیسیمیا جیسے مرض کا شکار بچوں کا سہارا بنیں۔ یہ بچے اللہ کی امانت ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari