Aik Dil Jo Mohabbat Ki Gawahi De
ایک دل جو محبت کی گواہی دے

جب اچانک چاچو منظور کے نمبر سے فون آیا تو لمحہ بھر کے لیے وقت ساکت ہوگیا۔ دل کے نہاں خانے سے ایک گہری ٹیس اٹھی اور آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔ وہ تو ان کا نمبر تھا، جو اب ان کے بیٹے کے پاس ہے۔ مگر اس ایک لمحے کی غلط فہمی نے ماضی کے سارے نقوش تازہ کر دیے۔ چاچو منظور، وہ ہنستا مسکراتا چہرہ، وہ دل کو چھو لینے والا لہجہ اور وہ بے لوث محبت۔۔ آج بھی سب کچھ اتنا ہی تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہ محبت کا تعلق کوئی نیا نہیں، بلکہ یہ تو نسلوں کا سفر ہے، جو دادا پردادا کے زمانے سے علیانی برادری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
چاچو منظور کی شخصیت میں ایسی مقناطیسیت تھی کہ جو بھی ملتا، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ ان کی باتیں، ان کا ہنسنا، سب کچھ بہت ہی پرکشش تھا۔ وہ ایک خوش مزاج اور خوش اسلوب شخصیت تھے، جن کی اچھائیاں آج بھی میرے دل میں زندہ ہیں۔ مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب ہم ایک تعمیراتی جگہ پر ایک ساتھ تھے۔ چاچو منظور، میں اور ایک بزرگ مزدور، ہم تینوں کے بیچ میں محبت، ہنسی مذاق اور گپ شپ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ وہ مزدور بھی ان کا بہت احترام کرتا تھا اور چاچو منظور کا اس کے ساتھ رویہ دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کوئی مزدور ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوب مذاق کرتے اور زندگی کی تلخیوں کو ہنسی میں اڑا دیتے۔ مجھے وہ رات آج بھی یاد ہے، جب سامان کی منتقلی کے بعد ہم دونوں نے ایک ہوٹل میں رات کا کھانا کھایا۔ اس رات کی یادیں میرے دل میں ایک قیمتی خزانے کی طرح محفوظ ہیں۔
اس کے بعد چاچو منظور کی زندگی میں ایک خوفناک موڑ آیا۔ ایک بے رحم بیماری، کینسر، نے انہیں آ گھیرا۔ ہسپتال میں ان کے آخری ایام دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا، مگر ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ اور حوصلہ تھا۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ ان جیسا خوش مزاج اور خوبصورت دل کا انسان میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ واقعی ایک بہت اچھے انسان تھے۔
آج، ان کے بھائی، مظہر علیانی صاحب، ہمارے ساتھ ہماری تعمیراتی جگہ پر بطور سپروائزر کام کرتے ہیں۔ وہ صرف ایک سپروائزر نہیں، بلکہ میرے لیے ایک والد کے برابر ہیں۔ ان کا میرے ساتھ تعلق بیٹوں جیسا ہے۔ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح بہت اچھے اور خوش مزاج ہیں۔ ان کا خلوص، ان کی محبت اور ان کی دیکھ بھال بالکل ویسے ہی ہے جیسے اپنے بیٹے کی ہو۔ علیانی برادری کی یہ محبت ہمارے ساتھ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ یہ ہمارے رشتوں کی بنیاد ہے۔
آج جب اس نمبر کی گھنٹی بجی، تو چاچو منظور کی یاد ایک بار پھر دل میں تازہ ہوگئی۔ ان کی اچھائیاں، ان کی محبت اور ان کی ہنسی آج بھی میرے دل میں زندہ ہے۔ آخر میں، میں اپنے چاچو منظور کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا اور دعا کروں گا کہ اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

