Kal Nahi Aaj Ko Badlo
کل نہیں آج کو بدلو
خواتین سے زیادتی، بدلحاضی اور تلخ کلامی کا رواج تو جیسے ہمارے ثقافت کا حصہ بن گیا ہو۔ قابل افسوس بات یہ نہیں کہ یہ حصہ ہے بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس زاویے کو بڑھاوا دینے والے وہ افراد ہیں جو خود کو ثقافت و اقتدار کا محسن بتاتے ہیں۔ کیا اس طرح کے محسن ہی معاشرے میں سدھار کا باعث بنتے ہیں یقیناً نہیں۔ میرا تزکرہ اس وائرل ویڈیو کے بارے میں ہے جو 31 جنوری کو منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں ھمارے بہادر پولیس اہلکاروں نے چوری اور ڈکیتی میں ملوث خواتین کو زیر حراست لیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کی وہ دیہاتوں میں اہل خانہ کو بےوقوف بناتی ہیں اور قیمتی مال و اشیاء کی چوری کرتی ہیں۔
یہ ساری داستان ایک طرف لیکن جس طرح ان کو حراست میں لیا گیا وہ افسوسناک ہے۔ ویڈیو میں ایک پولیس افسر کو خاتون پر لات مارتے اور دوسرے کو ان پر طعنہ کشی کرتے ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ تیسرا اہلکار ان کو بازیاب کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو نے تحلکہ مچایا اور افسروں کی افسری پر انگلی اٹھائی۔ اگر تنقیدی نقطہ پر غور فرمایا جائے تو کس سروس کی ٹریننگ میں ایک مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانا جائز قرار دیا گیا ہے، خواتین کی گرفتاری کے لیے خواتین اہلکار کا ہونا بھی ضروری ہے بہت ہی پیچیدہ معاملات میں مرد گرفتاری کر سکتا ہے۔ یہ تمام واقعہ سسٹم سے سوال کرنے پر مجبور ہے کہ کس سمت اصولوں کی گاڑی رواں دواں ہے اس سسٹم میں کوئی پالیسی کوئی رضاکاری ہے بھی یا نہیں۔
جہاں تک میری معلومات ہے اس کے مطابق تو پولیس کا کام صرف مجرم پکڑنا ہے نہ کہ اس کی سزا بھی تعینات کرنا۔ سزا سے منسلک تو criminal law بنایا گیا ہے جس کے مطابق ہر قیدی کو اس کے کیے کی سزا ملتی ہے۔ لیکن آج کل تو بے لگام پولیس افسران جرم ثابت ہونے سےپہلے ہی یہ اختیار خود کو دیے بیٹھے ہیں اور طعنہ کشی کرنا، جسمانی ریمانڈ کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں کس نے یہ حق ان اہلکاروں کو دیا ہے اور کون اس بے لگامی میں ان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہا ہے۔ ایسی جہالت اور بےباقی کی کوئی سزا تعین بھی ہے کہ نہیں کب سمجھ آئے گی کہ ملزم کا تعلق بھی انسانیت سے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اذیت اور ظلم ایک جمہوری نظام کو فروغ نہیں دے سکتے۔ جب ہر فرد ہر نظام ظلم کے خلاف ہے تو اس کے خلاف رد عمل میں اتنی کوتاہی کیوں۔ کتنی اور سدیاں انسان کو انسانیت سکھانے اور اشرف المخلوقات کے معزز مرتبے کو حاصل کرنے میں گزار دیں گے۔ نا محرم خاتون پر ہاتھ اٹھانا ظلم کے نہیں بلکہ زنا کے زمرے میں بھی آتا ہے جس کی اسلام بھی شدید مزمت کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں پولیس کو قانون کا رکھوالا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بات صرف کل نہیں آج بدلنے کی ہے آج بدلے گا تو کل بہتر ہو گا ایسے بد لحاظ اہلکار جنہیں عورت اور جانور میں فرق نظر نہ آئے سسپنشن نہیں بلکہ اقتدار سے نکال دینا چاہیے۔