Ab Khud Kuch Karna Pare Ga
اب خود کچھ کرنا پڑے گا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنے حالات بدلنے کا
حکایتوں میں بیان کردہ باتیں جب آپ کے سامنے ہونے لگ جائیں تو ایک پل کے لیے دل اور دماغ دونوں سکتے میں آ جائیں گے کہ جو بربادی کے قصے کبھی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے آج ہمارے اپنے وطن پاکستان میں اس قدر رونما ہیں کہ ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو حکمرانوں پر کیچڑ اچھالتے دیکھا ہے کہ سب کچھ اس فلاں پارٹی، اقتدار، یا ادارے کا قصور ہے ملک کو بربادی سے دوچار کر دیا ہے اور یہ باتیں کر کہ ہم اپنے کندھوں سے تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا کر پھینک دیتے ھیں نہ ہم نے کبھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا نہ محسوس کیا اس لیے آج تک ہم نے ترقیاتی کام میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
کہتے ہیں کہ حکومت عوام کا عکس ہوتی ہے جیسی عوام ہوتی ہے ویسی حکومت ہوتی ہے یہ بات سولہ آنے درست ہے جس طرح ہماری عوام سست ہے بالکل اسی طرح حکومت بھی، اس لیے ناکامی کا ملبہ کسی ایک کے کندھوں پر ڈالا نہیں جا سکتا۔ حکومت عوام کے ہر فرض کی ایک ایک کارکردگی پر نظر نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی اس کو ٹھیک کر سکتی ہے۔ اگر ہر بندہ جو قوم بنانے کا جذبہ رکھتا ہو اپنی ذمہ داری محسوس کرے تو ہم کبھی رسوائی سے دو چار نہ ہوں۔ کہتے ہیں قوم کا تمام تر سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے اور اس سرمائے کی کامیابی تعلیم سے ہی ممکن ہے پڑھا لکھا انسان اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ قوم کا مستقبل بھی سنوارتا ہے لیکن ہمارے ملک میں نوجوان نسل پڑھائی کے علاوہ ہر چیز میں ملوث نظر آتی ہے ہمارے نوجوان لڑائی جھگڑے، گالی گلوج، مار پیٹ ان تمام اوباش عادات میں اپنا کردار بہ خوبی نبہا رہے ہیں کوئی پروگریس نہیں نظر آتی تو پڑھائی اور ترقیاتی کاموں میں نظر نہیں آتی ایسا کیوں ہے کیوں ہماری نسل کو ملک سے پڑھائی سے ترقی سے انسیت نظر نہیں آتی یہاں تک کچھ کو تو اپنے ماں باپ تک سے دلچسپی نہیں۔ بلکہ کئی نوجوانوں کے منہ سے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ پڑھائی ہمیں کیا دے گی اگر کچھ دے گی نہیں تو ضائع بھی نہیں ہو گی لیکن سوچنے کی قوت ضرور دے گی دنیا بدلنے والی سوچ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی سوچیں آتی کہاں سے ہیں۔ نشے کی لت کو، شراب نوشی کو، دیر رات تک ناچنے کو فیشن اور دولت مندluxury life ہونا تصور کیا جاتا ہے اور ہماری جوان نسل اسے cool تصور کرتی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے اپنی نسل کو برباد ہوتے دیکھ کیا اس کی ذمہ دار حکومت نہیں جناب ہم خود ہیں۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے لکھنے کچھ سیکھنے کچھ دریافت کرنے کا وقت ہوتا ہے تب cool بنے میں اپنا سب سے قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں ڈگری ہے نوکری نہیں یہ ڈگری نہیں صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے نوکری ہمیشہ قابلیت کی بنیاد پر ملتی اور قابلیت ہر شخص کی منفرد ہوتی ہے آپ کو خود کو بیچنا پڑتا ہے اپنی قابلیت دنیا کو بتانی پڑتی ہے کوششوں کرنی پڑتی ہے خود کو منانا پڑتا ہے اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کوشش سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ تو پھر نوکری۔ اب اس کی ذمہ دار حکومت نہیں ہم خود ہیں ابھی بھی وقت ہے خود کو بدلنے کا محنت سے کوشش سے لگن سے۔ اب خود ہی کچھ کرنا پڑے گا ملک کی سلامتی کے لیے ترقی کے لئیے اور پاکستان کی بنیاد کے اصل مقصد کو سمجھنے کے لیے جو ہے لا الہ الا اللہ۔
خود کو بدلنا آسلن نہیں ہوتا لیکن کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا جب تک ہم خود اس کو مشکل نہیں بناتے اپنی سوچ کو بدلو نظریہ کو بدلو جو زندگی تم جی رہے ہو اسے زندگی جینا نہیں گزارنا کہتے ہیں زندگی گزارنے کے لئے خود کچھ کرنا پڑتا ہے بلندیوں کے آسمانوں پر اپنا نقش کروانا پڑتا ہے اور پہچان وطن سے ہے۔