Wali Ullah e Waqt
ولی اللہ وقت
وہ ان کی ولایت کا معترف تھا۔ وہ ہیں بھی تو ایسی ولی اللہ۔
وہ کنکھیوں سے جہاں داؤ لگتا ٹکا کر تاڑا کرتا، یہاں تک کہ آس پاس بیٹھے میرے بچے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے۔
اس دن کسی طرح اسے موقع میسر آگیا۔ ثقہ راوی ایک یک صفت ملازم تھا۔ آنکھوں دیکھا واقعہ کچھ یوں بیان کرتا ہے۔
"اس روز وہ ایک گریس فل رند کی طرح پیگ بھر محلول جام ہاتھ میں لیے گھما رہا تھا۔
ابھی اس نے حکم ہی دیا تھا کہ انعام آنا ذرا بوتل نکال کر دینا۔ اس سے پہلے کہ میں جاتا، وہ اندر پہنچ گئیں۔ انہوں نے فریج سے بوتل نکالنی چاہی تو فریج پر پڑی معروف مذہبی کتاب پر نظر پڑی۔ انہوں نے فریج کھول کر ایک ہاتھ میں بوتل پکڑی، دوسرے ہاتھ سے کتاب، اور دونوں اٹھا کر اس کے سامنے میز پر رکھ دیں۔ اب اس کی نظر ان پر پڑی۔ اس کے چہرے پر ایک شرمیلا پن تھا جو وہ ایسے موقع پر حجلہ عروسی میں اشتہا کی منتظر دلہن کی طرح سجانے کا ماہر تھا۔
انہوں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔
"خان صاحب، جس فریج میں محلول بھرا پڑا ہے اسی فریج کے اوپر یہ کتاب؟ یہ تو غلط ہے ناں خان صاحب؟"
اس نے ہمیشہ کی طرح نظر اور نظریات دونوں نیچے کر کے اقبال جرم کے انداز میں سر ہلایا۔
ابھی وہ جام اٹھا کر لبوں تک لے جانے کو تھا کہ انہوں نے پھر ٹوکا۔۔
"خان صاحب، یہ غلط ہے۔ حکم ہے دایاں ہاتھ استعمال ہو"
اس نے جام بائیں سے دائیں ہاتھ میں تھاما اور پیگ بھر محلول ایک ہی سانس میں چڑھا گیا۔
اب ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات واضح تھے۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے پہلی بار ان کو ڈھٹائی کے ساتھ تاڑا۔
مجھے لگا معاملہ حد سے گزر چکا ہے تاہم وہ ولی اللہ ہی کیا جو حلیم اور بردبار نہ ہو۔ انہوں نے اپنے چہرے کی ناگواری اچانک نو دو گیارہ فرمائی اور بہت شفقت کے ساتھ بوتل اٹھا کر ایک عدد پٹیالہ پیگ بنایا، پھر وہی پیگ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کے دائیں ہاتھ میں تھمایا اور ایک ماں کی طرح بہت محبت سے گویا ہوئیں۔۔
"خان صاحب، اب آپ نے دائیں ہاتھ سے مشروب کو تین سانسوں میں پینا ہے"
خان صاحب جیسے خوشی سے نہال ہوگئے۔
وہ اٹھیں اور کتاب کسی مناسب جگہ رکھنے چل دیں۔
اس رات خان صاحب نے اپنی Tag Heuer ڈھونڈتے ہم سب کی فواد چوہدری والی کر ڈالی، حالانکہ صبح تک وہیں میز پر پڑی تھی۔ "
یہ بھی کمال وقت تھا۔ ابھی نکاح کی سنت نبوی کا باضابطہ پیغام نہیں بھیجا گیا تھا کیونکہ طلاق کا بے ضابطہ عمل فی الوقت باقی تھا۔
۔۔
کتاب "جانے والے کو کون چین پود روک سکتا ہے" سے اقتباس