Tupac Hamara Hero Sidhu Musewala Se Hamain Bair
ٹوپاک ہمارا ہیرو سِدّھو موسے والے سے ہمیں بیر
اپنی سمجھ یہ کہتی ہے کہ انسان کی جانب سے اپنے تخیل کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ہر وہ طریقہ جس پر محنت ہو، جس کے پیچھے سوچ ہو، جس میں پیغام ہو وہ آرٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ کام آواز کے ذریعے کیا جائے تو موسیقی یا میوزک بن کر سامنے آتا ہے۔
آرٹ پر دو جمع دو چار والا معاملہ صادق نہیں بیٹھتا۔ آپ کو جانی ڈیپ پسند ہو سکتا ہے۔ کسی اور کو ڈینزل واشنگٹن۔ کسی کو ڈریو بیریمور تو کسی کو کیمرون ڈائز۔ یہ ایک qualitative وصف ہے۔ گویا کسی کے لیے آرٹ کی ایک صورت اچھی تو کسی اور کے لیے وہی شکل بری۔ لہذا یہ دلیل کہ فلاں بندے کو گلوکار یا موسیقار کہنا بنتا ہی نہیں الا یہ کہ کسی کو موسیقی کے مخصوص genre میں پائے جانے والے مروجہ معیار پر پرکھا جائے اور وہ کسی پر پورا نہ اترے۔ مثلاً چاہت فتح علی خان کو آپ گلوکار نہیں کہہ سکتے تاہم آپ انہیں کامیڈین کہہ سکتے ہیں کیونکہ انہیں سن کر موسیقی کا سینس کم ہنسی زیادہ آتی ہے۔ اس لحاظ سے چاہت فتح علی خان فنکار تو ٹھہرے مگر موسیقار یا گلوکار نہیں۔
گینگسٹر ریپ یا Gangster Rap ماضی یعنی80 کی دہائی میں شروع ہونے والی موسیقی کی ایک مخصوص genre تھی جس کی چیدہ خصوصیات میں اسلحہ، غنڈہ گردی، منشیات، پیسہ اور تشدد کے گرد گھومتی لفاظی شامل تھی۔ اس کا ارتقاء حقیقتا گلی محلوں کے گینگز سے ہوا تاہم بعد ازاں اسی genre نے Biggie Smalls یا Notorious BIG، Tupac، Dr. Dre، Snoop Dogg، 50 Cents، Eminem وغیرہ پیدا کیے۔ ان تمام ریپرز کی موسیقی میں اسلحے، منشیات، جسم فروشی، تشدد وغیرہ یکساں ہیں۔ ان کے درمیان آپسی اختلافات بھی اتنے شدید رہے کہ ٹوپاک اور بگی سمالز کے قتل کو آج بھی اسی تشدد پسندی سے جوڑا جاتا ہے۔
گینگسٹر ریپ کو جرائم سے جوڑا جانا کچھ نیا نہیں ہے۔ امریکہ میں ایک عرصہ یہ بحث جاری رہی کہ جرائم اور گینگسٹر ریپ کا آپس میں تعلق ہے۔ یہ بحث کس حد تک ٹھیک تھی کس حد تک غلط یہ بذات خود یوں ایک سوالیہ نشان ہے کہ امریکہ میں آج تک بھی سیاہ فام اپنے حقوق نہ ملنے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ باراک اوبامہ اور مشال اوباما اپنی اپنی کتابوں میں اس پر نہایت تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔
اسی کی دہائی میں یہ تفریق اس سے کہیں زیادہ تھی جو کچھ برس قبل جارج فلائیڈ کے قتل کے موقع پر ہم نے دیکھی۔ امریکہ کے سیاہ فام باشندوں کو ایک عرصے تک عام سکول میں پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ ایک عرصے تک انہیں غلام تصور کیا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیاہ فام امریکیوں کی نسلیں معاشی طور پر کمزور ہوئیں۔ گینگسٹر ریپ میں بنیادی رونا یہی تفریق اور زیادتی ہوا کرتی تھی، ہے۔
چند بول ملاحظہ ہوں۔۔
I see no changes. All I see is racist faces / Misplaced hate makes disgrace to races we under / I wonder what it takes to make this one better place.
اور۔۔
They got me trapped / Can barely walk tha city streets / Without a cop harassing me, searching me / Then asking my identity / Hands up, throw me up against tha wall / Didn't do a thing at all
اور۔۔
In time I learned a few lessons / Never fall for riches / Apologizes to my true sisters / Far from bi*ches / Help me raise my black nation / Reparations are due.
لہذا جہاں ایک جانب گینگسٹر ریپ پر معاشرے میں جرائم کو گلورفائی کرنے کا الزام لگتا ہے وہیں یہی گینگسٹر ریپ معاشرے کی ناانصافی، غریب کے استحصال، تفریق اور ظلم پر تنقید بھی کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود گینگسٹر ریپ ناصرف مین سٹریم ہپ ہاپ پر ایک عرصہ حاوی رہا بلکہ آج بھی اس کی چھاپ hip hop genre میں ٹھیک ٹھاک نظر آتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں آرٹ جس رنگ میں بھی ہو آرٹ ہی رہتی ہے۔ اس میں دیے گئے پیغام سے اختلاف ہو سکتا ہے اس سے پسندیدگی یا ناپسندیدگی ہو سکتی ہے تاہم اس کے آرٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ سندھو موسے والا کا295 فیس بک پر سنا تھا۔ اس وقت بھی اس کے بول بہت پراثر لگے تھے۔ ایک گانا ماں کے بارے میں آج کل میں سنا۔ اچھا لگا۔ حالانکہ یاد رہے میں پنجابی سپیکر نہیں۔
غنڈہ تھا، تشدد پسند تھا، اسلحے کی نمائش کرتا تھا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ حضور۔۔ جٹ دا کھڑاک سے لے کر گیم آف تھرونز میں کون سا باچا خان کی عدم تشدد پالیسی کا سبق دیا جاتا رہا؟ جانے دیجیے بھئی۔ ایک جوان تھا۔ فنکار تھا۔ فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ہماری جوان نسل کے ایک حصے کو پسند تھا۔ قتل ہوگیا۔ اسی نسل کے حصے کو دکھ ہوا۔ تشدد، اسلحہ، منشیات۔۔ کیا یہ ہالی وڈ سے ناپید ہوچکے ہیں؟ نہیں ہوئے۔ تھوڑا برداشت کر لینے میں کوئی ہرج نہیں۔
ایسا کیوں کہ ٹوپاک سے ہمیں آج بھی ہمدردی ہے سِدّھو موسے والا کے قتل پر ہمیں اسلحہ یاد آگیا؟
نوٹ: مسلم، غیر مسلم پر بغلیں بجانے والی بحث اس قابل نہیں کہ میں اس پر بات بھی کروں۔