Tark e Watan, Akhir Kyun Nahi? (2)
ترکِ وطن، آخر کیوں نہیں؟ (2)
یہ 2013 کی بات ہے۔ آج 2023 ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ایک بندے کے پاس آزاد ویزے کے لیے درکار رقم موجود ہو، جو اس کے ارد گرد کے لوگ خدا سے چاہتے ہوں مگر کسی بھی وجہ سے بندوبست نہ کر پا رہے ہوں، اس کے لیے اس رقم کا اپنے پاس موجود ہونا ہی ایک اچیومنٹ ہے، اور پھر اس رقم سے "پاکستان سے زندہ بھاگ" مارکہ درست قدم اٹھانا بھی ایک اچیومنٹ ہے۔
ہر وہ بندہ جو skilled immigration پر دنیا بھر کو کمپیٹ کرکے باہر جاتا ہے اسے اس اچیومنٹ پر فخر ہونا چاہئے اور آپ جتنا بھی انکار کر لیں، اس کے ارد گرد کے لوگ بھی اسے اچیومنٹ مان کر اس پر فخر کرتے ہیں۔ پھر تعلق جہاں سے بھی ہو۔
کسی شے کا سایہ کتنا بڑا ہے اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ آپ اس شے کو کہاں سے کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے کوئی شخص قابل ترس نظر آتا ہے تو اس بات کو پرکھنا پڑے گا کہ میں خود کس حد تک قابل ترس ہوں۔ میں سمجھتا ہوں زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اس ایک بار کو بھرپور طریقے سے جینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں جذبات، انسان اور کمپیوٹر کے درمیان تفریق کرتے ہیں لہٰذا کسی انسان کو جذبات سے عاری کمپیوٹر بھی نہیں بننا چاہئے اور جذبات کے زیراثر، ایک اور فقط ایک ہی بار ملنے والی زندگی کو جھنڈ بھی نہیں بنانا چاہیے۔ آپ کے جذبات ماں باپ، بیوی بچوں اور چند ایک دوستوں تک محدود رہیں تو بہتر ہے۔ ورنہ قابل ترس تو میری نظر میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے گلی میں موجود سپیڈ بریکرکے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
میں پاکستان میں تھا تب بھی لوگوں سے ملنا جلنا کم ہوتا تھا، امارات گیا تو اس میں مزید کمی آئی جو مجھے بہت پسند تھی۔ آسٹریلیا آیا تو یہ معاملہ پوری طرح سے میرے کنٹرول میں ہے۔ ممکن ہے میری حالت آپ کو قابل ترس معلوم ہوتی ہو، میں البتہ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی سوشل طبیعت کے باعث ہر ہفتے دوسروں کے گھر دعوت میں مجبوراً جاتے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میری نظر میں ایسے لوگ قابل ترس ہوتے ہیں۔ لیکن کسی شے کا سایہ کتنا بڑا ہے اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ آپ اس شے کو کہاں سے کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے کوئی شخص قابل ترس نظر آتا ہے تو اس بات کو پرکھنا پڑے گا کہ میں خود کس حد تک قابل ترس ہوں۔
آپ فرماتے ہیں بیرون ملک مقامی افراد پاکستانیوں کو اپنے برابر یا لائق نہیں سمجھتے۔ پانچ منٹ رک کر آپ سے بات نہیں کرتے۔ آپ کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں۔ آپ سے سوشلائز نہیں کرتے۔ ممکن ہے ایسا ہوتا ہو لیکن اس پر مزید بات کرنے سے پہلے میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ مملکت پاکستان کے میرے پیارے باسی کتنے راہ چلتے افغانیوں کو اپنے لائق سمجھتے ہیں؟ کتنے ازبک لوگوں سے پانچ منٹ رک کر بات کرتے ہیں؟ میں 1986 سے 2007 تک پشاور میں رہا ہوں، اس دوران میں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب پشاور میں گھروں پر ایک اور منزل لوگ یہ سوچ کر ڈالتے کہ ایک کی بجائے پانچ چھ افغان فیملیز کو دیں گے (کیونکہ اکیلی افغان فیملی کرائی نہیں دے سکتی تھی) اور کرایہ کھائیں گے۔ مجھے تو اچھی طرح یاد ہے وہ دور جب ہم انہیں اپنے سے کمتر سمجھتے رہے حالانکہ ان کے اس حال میں پہنچنے میں ان کے نزدیک ہم پاکستانی ہی مورد الزام ٹھہرتے تھے؟
بھائیوں۔۔ سوشلائزیشن وہاں ہوتی ہے جہاں مشترکہ دلچسپیاں ہوں، اکٹھی وقت گزاری ہو، گوانڈ گیری ہو، پڑوس ہو، ایک جگہ کام کرنا ہوتا ہو۔ میرا خیال ہے آپ نے غلط بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈاؤن لوڈ کر لیے ہیں ورنہ جہاں جہاں یہ سب موجود ہو میرا تو تجربہ ہے سوشلائزیشن بھی ہوتی ہے، دوستی بھی۔ تاہم آپ کی مجبوری یہ ہے کہ آپ کو دوسروں کے کہے پر یقین کرنا ہے۔
اس ضمن میں دو طرح کے لوگوں کا وجود حقیقت ہے۔ پہلے وہ جو مسجد بنا کر اس کے گرد مقیم و مقید ہوجاتے ہیں اور یوں وہ خود اینٹی سوشلائز ہونے میں پہل کرتے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، کہ دیسی خود دور جا کر رہنا سہنا شروع کر دیں اور گورا وہاں آپ کے علاقے میں آ کر آپ کو کہے چل جانی سوشلائزیشن کرتے ہیں، ایسا؟ سوری بھائی۔۔ ایسا ہوتا نہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو مذکورہ بالا دیسی الباکستانیوں کی یکیوں سے بھاگ کر پاکستان سے نکلتے ہیں اور پھر ان کے ہر ممکنہ اکٹھ سے بوجہ دور بھاگتے ہیں۔ باچیز خود کو مؤخر الذکر قبیل کا حصہ جانتا ہے۔ چونکہ آپ نے پہلے ہی ذہن بنایا ہوا ہے کہ کوئی ہمیں پوچھتا نہیں، اس قابل نہیں سمجھتا، برابر نہیں سمجھتا وغیرہ وغیرہ لہٰذا یہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ میں اپنے آسٹریلین کولیگز کے ساتھ جب بھی ملتا ہوں فارمل ڈنر کے بعد تین چار گھنٹے ہم پب میں بیٹھ کر صرف گپیں لگاتے ہیں۔
یہ بھی بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ میری اہلیہ کے ساتھ کام کرنے والی آسٹریلوی خاتون اکثر بغیر بتائے گھر پہنچ کر گپیں لگایا کرتی اور مجھ سے میرے کھانوں کی تفصیل پوچھا کرتی، اور یہ گپیں بیگم صاحبہ کے جاب چھوڑنے کے بعد بھی جاری ہے۔ آپ کو یقیناً اس بات کا یقین نہیں آئے گا کہ میں ہمیشہ اپنے سی ٹی او کی میوزیکل پرفارمنس میں مدعو ہوتا ہوں تاہم چونکہ وہ سڈنی میں ہے لہٰذا آج تک اٹینڈ نہ کر پایا۔ آپ کو اس بات کو سمجھنے میں بھی دقت کا سامنا ہوگا کہ سوشلائزیشن کی بہترین جگہ پب یا کلب ہوتی ہے جہاں الحمد للہ ہمارے دیسی جانا ہی گناہ سمجھتے ہیں۔
میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ "پھر آپ ہی بتا دیں اور کیا لٹکائیں؟"
اعجاز نے بہت سی باتیں بغیر کسی ربط بس کہہ دی ہیں۔ جوابی بیان کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں کہ میری کوشش ہے حتی الامکان پر بات کا ایک ہی بار احاطہ ہوجائے۔
اعجاز کہتے ہیں روز ایک مشین کی طرح اٹھ کر کام پر جانا، شام کو کام سے واپس آنا، ٹین پیک کی خوراک کھانا۔۔ یہ کوئی اچھی زندگی تو نہیں۔ میں اعجاز سے اتفاق کرتا ہوں۔ یہ ہرگز اچھی زندگی نہیں۔ یہ ایک بے رنگ، پھیکی اور پھر ٹین پیک کے باعث بے ذائقہ زندگی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ صبح انسان اٹھے اور دل ہو کہ کام پر نہ جائے تو پھر اس کے پاس یہ حق ہو کہ کام پر نہ جائے۔ وہ آفس فون کرے اور کہے۔۔ یار میرا دل نہیں آج سو میں نہیں آرہا۔ اور اسے چھٹی مل جائے۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے پاکستان میں۔ باہر کہاں ایسا ممکن ہے؟ یہ بھی ہونا چاہیے کہ انسان صبح اٹھے، ٹھنڈ میں غسل کرنے جائے اور آگے رات کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث گرم پانی ہی میسر نہ ہو۔
بھئی thrill ہونا چاہیے سنسنی ہونی چاہیے زندگی میں۔ پھر بندہ تیار ہوکر کام پہ نکلے تو یہ کیا بات ہوئی کہ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہے؟ بھئی کوئی ہڑتال ہو کوئی دھماکہ ہو، کوئی ہنگامہ ہو۔۔ اور کچھ نہ ہو تو کم از کم ماحولیاتی آلودگی تو ہو۔ یہ کیا کہ صاف ستھرا آسمان کوئی ہلچل نہیں کوئی ہڑتال نہیں، پبلک ٹرانسپورٹ بھی دستیاب۔۔ یہ کوئی اچھی زندگی تو نہیں۔ ٹین پیک والی بات بہترین فرمائی۔ یہ کوئی طریقہ ہے کہ ٹین پیک میں کھانا دستیاب ہے، اٹھاؤ اور کھا لو۔ بس؟ یار کوئی روئی والی حلیم ہونی چاہیے کوئی کتے کے گوشت کی بریانی ہو جو سڑک پر بک رہی ہو جس میں دھوئیں سے لے کر گرد و غبار مکس ہو، جس میں ڈلی کٹی مرچوں میں اینٹ لکڑی کا برادہ شامل ہو، شہد دودھ ہو کھلا جس میں بیچنے والے کا خلوص ملا ہوا ہو۔۔ اور مہنگا بھی ہو۔۔ بھئی یہ ہوتی ہے اچھی زندگی۔ ہیں؟
دیکھیے بعض اوقات مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیسے سنجیدہ راستہ اختیار کرکے ایک بات کی تشریح ہو۔ معذرت خواہ ہوں، طنز کی راہ اختیار کرنی پڑی۔
فرمایا گوریاں ایشینز کو منہ نہیں لگاتیں بلکہ تھوکتی بھی نہیں۔ عرض ہے، کسی پاکستانی خاتون سے ایک بار اس کے انباکس کا حال احوال پتہ کر لیں۔ پھر یہ پتہ لگائیں کہ آپ (آپ سے مراد ہمارے دیسیوں) کے لیے اپنی ہی خواتین کی قبولیت اور پسندیدگی کی شرح کیا ہے۔ ہر پاکستانی عورت پر کتنی اور کس قماش کی ٹرائی ہوتی ہے۔ پھر آپ یہ سوچیں کہ آپ کے مرد کا عمومی رویہ کیا ہے۔ آپ جس حیثیت میں بیرون ملک گئے ہیں اس میں مالی استحکام کتنا ہے؟ گوری آپ کو کیوں منہ لگائے؟ اس لیے کہ آپ اس سے شادی کرکے اسے اپنے تابع کر لیں؟ اس لیے کہ آپ اس کے ساتھ رہ کر اپنا مستقبل بنانے کی بجائے گھر میں بیٹھی بہن کے جہیز کے لیے رقم جمع کریں؟ اس لیے کہ آپ اس کے لباس کو دیکھ کر استغفراللہ کہیں اورپھر اسے برقعہ ہدیہ کریں؟ یار دیسی سالے بلوجاب کروا کر چمی تک تو لینے سے بھاگتے ہیں، آپ کا مرد اس قابل ہے کہ جس برابری کے معیار پر گوری کھڑی ہے آپ اس پر پورے اتر سکیں؟ آپ سٹوڈنٹ ویزے پر آتے ہیں، آتے ہی کورس تبدیل کرکے ٹیکسی چلانے لگ جاتے ہیں، سیکیورٹی پر کھڑے ہوجاتے ہیں، آپ کا ارتکاز سمسٹر فیس جمع کرنے اور واپس گھر پیسے بھیجنے پر ہوتا ہے۔ گوری آپ کو فقط اپنی اندام نہانی عطیہ کرنے کے لیے منہ لگائے؟ کیوں بھئی؟
ہاں گوری منہ لگاتی ہے، ایشینز کو بھی منہ لگاتی ہے اور آپ کی سوچ ہے کس حد تک لگاتی ہے۔ بس پاکستانی الحمد للہ اپنی حرکتوں کی بنیاد پر مطعون ہیں۔ مجھے ویڈیو بنانا عجیب لگتا ہے ورنہ آپ کو دکھاتا ہر پبلک پلیس پر کتنی گوریاں کتنے ایشینز کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
اس دن ایک اور معزز خاتون نے لکھا کہ ڈنکی لگانے کی بجائے اپنے ملک میں ہی بیس پچیس لاکھ سے عزت دار کاروبار شروع کیوں نہیں کرتے۔ مجھے بہت ہنسی آئی۔ بیس پچیس لاکھ! ف چ کتنے privileged ہیں ہم۔ بیس پچیس لاکھ جیسے ہر بندہ جیب میں لیے پھرتا ہو یا اکاؤنٹ میں موجود ہوں۔ بیس پچیس ہزار اضافی جمع کرنا جس ماحول میں مشکل ہو وہاں ہم بیس پچیس لاکھ کی بات یوں کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ارد گرد بیس پچیس لاکھ والے لوگ بہتات میں ہیں۔ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اعجاز نے لکھا کہ یہاں (پاکستان میں) محنت سے چھوٹا موٹا سہی کچھ ایسا کر لو جس سے ایک "حقیقی اچھی زندگی" نہ چھوڑنی پڑے۔ میں دوستیوں اور رشتہ داریوں کو صفر سے ضرب تو نہیں دیتا البتہ یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا مستقبل ہر دوستی یاری رشتہ داری سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ایک اچھا مستقبل کیا ہے؟
ساٹھ برس کی عمر میں گاؤں میں یاروں کے ساتھ بیٹھ کر چلم چھکنا اور ماضی میں ایسے فیصلے کرنا جس سے آپ اپنی اولاد کو جائز خوشیاں نہ دے پائیں؟
یا پھر۔۔
بڑھاپے میں جوانی کے یاروں سے دور مگر بڑھاپے کے نئے بدیسی یاروں کے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بار بی کیو کرنا؟
انسان معاشرتی جانور ہے۔ ثقافت، رسم و رواج انجوائے کرنے کے لیے ہوتے ہیں ناکہ اس لیے کہ ان کی خاطر اپنی روز مرہ کی خوشیاں متروک کر دی جائیں۔ دوست ساری زندگی بنتے بچھڑتے رہتے ہیں۔ جو مستقل دوست ہوتے ہیں ان کے لیے فاصلہ بس ایک لفظ ہوتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں ہوتے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ چٹھیوں کی جگہ اب واٹس ایپ اور ویڈیو کال نے لے لی ہے۔ دوستوں یاروں کی محفلیں جمانا کوئی بڑی بات نہیں۔ عید شب برأت کی جگہ کرسمس ایسٹر نیو ائیر لے لیتے ہیں۔
لیکن اپنی اولاد کو ترکے میں وہ مسائل دے کر جانا جن سے آپ انہیں محفوظ رکھ سکتے تھے، اپنی اولاد کو وہ آسان راستہ فراہم نہ کرنا جو آپ کر سکتے تھے، اپنے والدین بہن بھائیوں کو ان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ اپگریڈ نہ کرنا جو آپ کر سکتے تھے۔۔ میرا خیال ہے اس کا بار دوستیوں، یاریوں، رشتہ داریوں عیدوں، شب باراتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
میں ڈنکی لگانے یا کسی بھی غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے ہرگز حق میں نہیں۔ لیکن دوستو۔۔ ایک دن تسلی سے بیٹھ کر اپنی privileges کا شمار کیجیے، اور دیکھیے کہ جن کے پاس وہ سب کچھ نہیں جو آپ کو محنت کے بغیر یا قسمت سے یا بیشک محنت کے بعد ہی ملا ہوا ہے، ان کی زندگی روز روز ڈنکی لگانے جیسی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اس میں ریاست کا ہاتھ ہے یا نہیں؟ اور اگر ریاست کا ہاتھ ہے تو پھر۔۔ مٹی سے محبت، زمین سے محبت۔۔ یہ سب بصد معذرت فقط ایک ڈھکوسلہ رہ جاتے ہیں۔
یہ میرا خیال ہے۔ اس سے متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو میری جانب سے غیر مشروط نادر و نایاب معذرت قبول ہو۔
ختم شُد۔