Tark e Watan, Akhir Kyun Nahi? (1)
ترکِ وطن، آخر کیوں نہیں؟ (1)
برادر اعجاز عدیم کی وطن سے دوری اختیار کرنے پر تازہ ترین پوسٹ نظر سے گزری۔ محسوس ہوا کہ بہت سی باتیں ناتجربہ کاری، جذباتیت اور کہیں کہیں غیر محسوس تعصب پر بھی مبنی ہے۔ باچیز اب سنجیدہ موضوعات پر لکھنے سے بھاگنے کی کرتا ہے مگر دوستوں کے اصرار پر بات کرنی پڑ جاتی ہے۔ پس اسی لیے یہ جوابی گزارش پیش خدمت ہے۔ اعجاز چونکہ مزے کا بندہ ہے لہٰذا جوابی گزارش میں طرز تخاطب بھی کوشش ہوگی کہ محبت بھرا رکھا جائے۔ بقول جون ایلیا۔۔
تم لاکھ جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
میں پاکستان میں پیدا ہوا۔ پچیس تیس سال گزارے۔ اس "تہذیب" میں پلا بڑھا۔ ایک ذائقہ اور ذوق ڈیویلپ کیا۔ وہاں کے طرز حیات سے مانوس ہوا۔ یار دوست بنائے۔ رشتہ داروں کے بیچ رہا۔ اور پھر یکایک سات سمندر پار ایک ایسے ملک چلا گیا جس کی حمد و ثناء پر ہم بعد میں آتے ہیں۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے فقرے معاملات کی oversimplification کی کلاسیکی مثال ہیں۔ میں پاکستان میں پیدا ہوا، مگر اپنی مرضی سے نہیں۔ اعجاز بھائی کو بھی اپنی مرضی سے پیدا ہونے کا اختیار دیا جاتا تو آپ پاکستان کا انتخاب کرنے سے گریز کرتے۔ سو یہ میری چوائس نہیں، قسمت کے کھیل ہیں، ان حقائق میں سے ایک ہے جنہیں تبدیل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔
میں نے پاکستان میں پچیس تیس سال گزارے۔ میرے والدین کے پاس زمینیں جائدادیں نہیں تھیں۔ مجھے جو چند ایک "نعمتیں" میسر ہوئیں ان میں سے ایک دوران ملازمت راولپنڈی میں پھوپھی کے گھر کی چھت کا میسر آجانا تھا۔ مجھے پہلی جاب بھی سفارش سے ملی۔ گو میں ایکیڈیمک جہت سے نالائق کے زمرے میں نہ تھا لیکن خدا جانے کس کا حق مارا ہوگا پہلی جاب کے وقت ہی۔ یقین کیجیے ایسا کرتے ہوئے میرا دل بھی دکھا تھا لیکن جنگل کے قانون میں یسوع مسیح بننا بہرحال قابل حکمت امر نہیں۔ میں نے ان پچیس تیس سالوں میں استحصال جھیلا ہے۔ اتنا استحصال جس سے آپ کا واسطہ اگر نہیں پڑا تو آپ پریویلجڈ ہیں۔ کیوں اور کیسے پریولیجڈ ہیں اس پر آپ خود سوچیں۔ میرا ایک بچہ تھا جس کے لیے ہم سب سے سستے پیمپر خریدنے پر مجبور رہتے کیونکہ جتنی تنخواہ کا میں حق دار تھا اتنے پیسے ملتے نہ تھے۔ وہ پیمپر پاکستان جیسی مارکیٹ ہی میں آسکتے تھے کیونکہ ان سے بچے کے ریشز شروع ہوجاتے ہیں۔ میرا کام پر جانے کا وقت طے تھا واپس آنے کا نہیں۔ میں ویک اینڈ پر بھی کام پر ہوتا تھا۔ تین تین ماہ تنخواہ نہ ملنے پر بھی جاب نہیں چھوڑ سکتا تھا کیونکہ بیروزگاری پاکستان کی ایک بدصورت حقیقت تھی، ہے۔
استحصال شاید اتنا عام ہوچکا ہے کہ اب ہمیں جبر، جبر لگتا ہی نہیں۔ آپ تہذیب میں پلنے کی بات کرتے ہیں چلیں اس پر بھی چند حقائق پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
میں اردو سپیکر ہوں۔ پیدائش کے ایک برس بعد ہی مجھے کراچی سے پشاور لا بسایا گیا۔ میں چارسدہ روڈ سے متصل مدینہ کالونی، پشاور تبلیغی مرکز کے قریب واقعی صمدوگڑھی، پشاور صدر، نوتھیہ اور اندرون شہر بشمول ہشتنگری، شاہین بازار وغیرہ جیسے مقامات پر رہا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا نک نیم کم و بیش پر محلے میں"پنجابی دال خور" رہا۔ یہ وہ ڈسکرمنینشن ہے جو آپ کو کہیں پنجابی دال خور کی صورت میں ملے گی، کہیں مصلی کمی کمین کی صورت میں، کہیں اعوان بھٹیوں سے افضل ہوتے ہیں کی صورت میں تو کہیں سید غیر سید سے بہتر ہونے کی شکل میں ملتی ہے۔ یہ تفریق ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔ اگر آپ معاشرے کے ایسے طبقے سے ہیں جس کا بابا اوپر ہے تو آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے لیکن میں آپ کو ایک فقرہ ہدیہ کرتا ہوں جس کو پڑھتے ہی آپ کے یا کئی دیگر برادران کے احساسات کم و بیش وہی ہوں گے جو کسی پنجابی دال خور کے، کسی مصلی کے، کسی بھٹی کے، کسی غیر سید کے اپنے کم تر ہونے کا احساس دلائے جانے پر ہوتا ہے۔ وہ فقرہ ہے۔۔
"پنجاب ہمارا حق کھا جاتا ہے"
اب یہ فقرہ درست ہے یا غلط، احساس آپ کو اپنے کمتر ٹریٹ کیے جانے کا دلاتا ہے۔ اور میں سارے بچپن، لڑکپن، جوانی یہ جھیلتا آیا ہوں۔ تھانے کچہریوں تک بات گئی۔ مصلح ہوکر دروازوں پر فائر تک کھائے، لیکن پشاور چھوڑتے ہی یہ سب ایک تلخ یاد کے زمرے میں ڈال کر بھلا دیا۔ آپ جس تہذیب کی بات کرتے ہیں اس کی بنیادوں میں کافی سنجیدہ مسائل ہیں۔ آپ جس ذائقے اور ذوق کی بات کرتے ہیں اس میں ان بدصورتیوں کا، استحصال کے ساتھ عادی ہوجانا چھپا ہے۔ آپ کے معاشرے میں ہر مارجنلائزڈ طبقے کو مزید دیوار سے لگانا عام ہے۔ آپ اس exploitation کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کی عملی تصویر و تفسیر سے نابلد ہوچکے ہیں۔
برادر۔۔
All men are created equal, that they are endowed by their Creator with certain unalienable Rights, that among these are Life, Liberty and the pursuit of Happiness.
آپ نے استحصال کے عادی ہونے کو oversimplification کی میٹھی گولی میں بند تو کر دیا مگر۔۔ کیا جن معاشروں میں ہم "بھاگ" کر جاتے ہیں وہاں کی نسبت پاکستان میں یعنی اپنی مٹی میں تمام انسان برابر ٹریٹ ہوتے ہیں؟ کیا ان کے حقوق نامی کوئی شے ہوتی ہے؟
نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
آگے چلتے ہیں۔
دنیا بھر میں ایک نہایت اہم تصور ہے اور وہ ہے ڈائورسٹی diversity کا۔ کہنے کو ایک سادہ سا تصور ہے، ہے مگر بہت کام کا۔ ڈائورسٹی مطلب مختلف رنگ، نسل، مذہب، مسلک یعنی ہر قسم کے لوگوں کا مل جل کر رہنا اور ان سب کو ساتھ لے کر آگے چلنا۔ یعنی معاشرے میں مرد، عورت، معذور، ضعیف، خواجہ سرا، یوتھیا، پٹواری، جماعتی، اندھا، بہرا، گونگا، سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، احمدی، ہندو، عیسائی۔۔ ان سب کو ایک جیسے مواقع ملیں اور ان سب کو جان بوجھ کر ایک ہی چھت تلے کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ معاشرے کی کسی بھی اعتبار سے اقلیت پیچھے نہ رہے، معاشرہ بحیثیت کلی آگے بڑھ پائے، فرد ریاست کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالے اور اس کا مثبت اثر واپس فرد تک پہنچے۔ یہ تصور کسی بھی طریقے سے پرکھ لیا جائے، اس کے فائدے ہی فائدے ملیں گے، نقصان کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے تیل کی دولت کے بل بوتے پر فرسٹ ورلڈ کنٹری بننے والے ممالک جنہیں معلوم ہے کہ ان کی دولت تیل سے مشروط ہے ناکہ افرادی قوت کی محنت سے، ہر ترقی یافتہ ملک ڈائورسٹی کو اہمیت دیتا ہے۔
اعجاز کہتے ہیں کہ ملک، تہذیب، دوست، رشتے دار وغیرہ چھوڑ کر آپ سمندر پار ملک چلے جائیں جہاں لوگ آپ کے نہیں (اس نکتے پر کوشش کرتے ہیں الگ سے بھی آئیں)، زبان آپ کی نہیں، تہذیب و ثقافت آپ کی نہیں، لوگوں کی پسند ناپسند آپ سی نہیں، ذائقہ آپ کا نہیں، معاشرے کے تصورات آپ والے نہیں، ایسے ممالک میں جا کر آپ نے اپنی تمام accumulation یا بچت کہہ لیں، ایک ہی جھٹکے میں کھو ڈالی۔ یہاں میری دو تین گزارشات ہیں۔ اعجاز بھائی کا اپنا تعلق کے پی سے ہے۔ میرا تعلق کے پی سے یوں ہے کہ میں یہاں پلا بڑھا جوان ہوا ہوں ہاں یہ اور بات ہے کہ آخر تک پنجابی دال خور کہلایا جاتا رہا ہوں اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میرا تعلق پاکستان میں پشاور سے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۔۔ کیا سوات کی زبان اسلام آباد والی ہے؟ کیا سوات کی تہذیب سوات کا تمدن جلال پور جٹاں والا ہے؟ کیا سوات کے کھانے حیدر آباد والے ہیں؟ کیا سوات میں کئی معاملات کو لے کر تصورات کراچی والے ہیں؟ میرا خیال ہے نہیں۔ سوات میں پشتو بولی جاتی ہے جس کے بارے میں کراچی بھر میں تعصب کی حالت یہ ہے کہ ہمیں پشتو بولتا دیکھ کر مذاق اڑایا جاتا تھا کہ بھیا ٹین کے ڈبے میں پتھر ڈال کر ہلا رہے ہو۔ میں آج بھی مردان جاؤں تو کوشش ہوگی شارٹس نہ پہنوں، کیونکہ مردان کی تہذیب اس کے برعکس ہے۔ کیا کسی سندھی کا کھانا شنواری تکہ ہے؟ کیا بچی کی شادی کے موقع پر لڑکے والوں سے پیسہ لینا کراچی میں پسند کیا جاتا ہے؟
پاکستان میں کون سی ایک تہذیب ایک زبان ایک ذائقہ ایک جیسے تصورات ہیں؟ ایسا سوچنا ہے تو پھر تو اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جائیں اور اپنے علاقے سے باہر ہی نہ نکلیں۔ مجھے اہالیان کراچی سے ہمیشہ ایک بات پر اختلاف رہا ہے کہ شہر میں غیر مقامی افراد کو آکر بسنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں اس کے منفی اثرات اپنی جگہ مگر یہ بذات خود ایک تعصب ہے۔ یہ وہی تعصب ہے جو دیسی پاکستانی بیرون ملک پہنچ کر بھی خود سے منہا نہیں کر پاتے۔ یہاں آئیں گے، ایک غیر آباد علاقہ دیکھ کر اس میں ایک ڈیڑھ ہشیار مسجد بنائے گا، دوسرا اسلامک سکول یا کالج بنائے گا اور پھر سارے دیسی اس کے ارد گرد بس کر اسی ملک کے باسیوں سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائیں گے جس نے انہیں مرحبا کہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حرکت کرنے کی اجازت بھی ترقی یافتہ ممالک ڈائورسٹی اور فریڈم آف چوائس کے نام پر دیتے ہیں۔
تو برادر۔۔ آپ کے نزدیک نقل مکانی کے منفی اثرات ہیں، وہ دراصل خوبیاں ہیں۔ بدقسمتی سے اندرون پاکستان جس پنجاب کو ہم مطعون سمجھ کر برائی کرتے نہیں تھکتے، اسے چھوڑ کر باقی قریب ہر علاقے کے لوگ، غیر مقامی افراد کی آمد سے خوش نہیں ہوتے۔ سندھی کا بیر کراچی سے ہے۔ عابد میر بلوچستان رہ کر بلوچ نہ کہلوا پایا بیشک وہ خود کو بلوچ ایکٹوسٹ کہتا رہے۔ میں آج بھی پنجابی دال خور ہوں۔ کراچی کے لوگ سندھیوں سرائیکیوں پٹھانوں کے کراچی میں آنے پر معترض ہیں۔
کون سی ڈائورسٹی؟
آپ فرماتے ہیں یہ کلچر پنجاب میں نوٹ فرمایا کہ باہر سے آنے والوں کو سیلبرٹی سمجھا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم تین بھائی ایک بہن میں سے ایک امریکہ ایک آسٹریلیا اور باقی کے دو پشاور ہی میں بستے ہیں، میں اس بات کو بطور اصول یا مسلمہ حقیقت نہیں مان پاتا، لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارے ذاتی تجربات الگ ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے آپ درست فرماتے ہوں۔ پاکستان پدھار جانا البتہ ایک اچیومنٹ اگر تصور ہوتی ہے تو اس کے پیچھے بسا اوقات ایک وجہ ہوتی ہے۔ اور ان وجوہات کی بنیاد پر اگر باہر پدھار جانا ایک اچیومنٹ ہے تو وہ صرف پنجاب میں نہیں، پورے پاکستان میں اچیومنٹ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ میں ہوا میں نہیں چھوڑ رہا، اس حق دلائل آپ کے سامنے رکھوں گا جنہیں ماننا یا نہ ماننا آپ کا استحقاق ہے۔
میرے پہلے پاسپورٹ پر پہلا ویزا افغانستان کا چسپاں ہے۔ 2011 میں مجھے دو ہزار ڈالر کے عوض کابل میں ملازمت کا موقع ملا۔ دو ہزار ڈالر تب بھی ٹھیک ٹھاک حیثیت رکھتے تھے۔ مجھے خوشی یہ ہوئی کہ جس ویکینسی کے لیے مجھے بلایا جا رہا ہے ہر ایک وہ کام کرنے کا اہل نہیں۔ لہٰذا اچیومنٹ یہ تھی کہ مجھے میرے skill کی بنیاد پر اس قابل سمجھا گیا کہ NATO کے ساتھ indirectly کام کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ میرے لیے وہ بھی اچیومنٹ تھی۔ جن دوستوں نے مجھے کابل کی جانب متوجہ کروایا، وہ بھی چغل پورہ پشاور کے رہائشی تھے۔ ان دوستوں کے نزدیک بھی یہ اچیومنٹ ہی تھی۔
2013 میں مجھے پاکستان بیٹھے دبئی سے جاب آفر آئی۔ میرے لیے ایک بین القوامی جاب کے لیے کوالیفائی کرنا بھی اچیومنٹ تھی۔ کیوں نہ ہو؟ میرے مقابلے میں ترک، بھارتی اور دیگر پاکستانی تھے جن کو ایک جانب کرکے میرا انتخاب ہوا۔ کیوں نہ ہو یہ اچیومنٹ تصور؟ لیکن پھر ہوا یوں کہ کمپنی نے کہا بیٹا ٹکٹ خرید کر آجاؤ۔ حضور والا۔۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ آپ بہت سی جگہ پریلولیجڈ ہوتے ہیں، لہٰذا کسی کے غلط فیصلے پر تنقید سے پہلے اپنے پریولجڈ ہونے پر غور کریں۔ بہت سے لوگ وہ سب لے کر پیدا نہیں ہوتے جو ہمارے نزدیک ایک عام سی بات ہوتی ہے۔ میرے پاس پشاور تا دبئی یک طرفہ ٹکٹ کے پیسے ہی نہیں تھے۔ میں نے کمپنی کو یہ بات بتائی تب کمپنی نے مجھے ٹکٹ اور ایک ماہ کا ہوٹل فراہم کیا۔
جاری۔۔