Rishtedar 64, 65 (3)
رشتہ دار 64، 65 (3)
صبح اٹھا تو ایک دور پار کا خیال آیا۔ اس وقت دبئی میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن عروج پر تھی۔ دبئی سرکار اپنا ہر کام برق رفتاری سے موبائل ایپس اور ویب سائٹ پر منتقل کر رہی تھی۔ میرے ذہن میں صبح اٹھتے ہی جانے کیا آیا کہ میں نے RTA یعنی روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی موبائل ایپ سے گاڑی ریجسٹر کرنے کی کوشش کی۔ وہاں گاڑی کی انشورنس درکار تھی۔ ظاہر ہے، ممانی سلطانہ یا ماموں طاہر کے پاس تو ہاتھ ہلانے کے سوا کچھ چارہ نہیں تھا، سو انشورنس کے سات آٹھ سو درہم بھی اپنی جیب سے ادا کیے۔ اور اللہ کا نام لے کر گاڑی ریجسٹر کرنے کی کوشش کی۔ گاڑی۔۔ ریجسٹر ہوگئی۔ گاڑی ریجسٹر ہوتے ہی ویزا بھی کینسل ہوگیا اور کینسل ہونے کے بعد نیا ویزا بھی لگ گیا۔
اس دوران میں نے جو ذہنی دباؤ جھیلا وہ کسی کھاتے میں ہی نہیں۔ راس الخیمہ جانے کے لیے چھٹی لینا، ہوٹل میں رکنا، کھانا پینا، انشورنس اور ریجسٹریشن سب کچھ کا خرچہ۔۔ سب معاذ صاحب کی جیب سے۔ ممانی سلطانہ اور ماموں عامر نے کیا دیا؟ چھنکنا۔۔
گاڑی کی ابھی مزید چوبیس اقساط باقی تھیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ اس کے بعد ممانی سلطانہ اور ماموں طاہر نے خیال رکھا ہوگا تو۔۔ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ اگلے سال دوبارہ گاڑی کی ریجسٹریشن کی باری آئی تو ریجسٹریشن اور انشورنس کے علاوہ۔۔ شاید ڈیڑھ ایک ہزار درہم کے فائن بھی تھے۔ ایک بار پھر۔۔ یہ سب کچھ میرے اوپر ہی آیا۔ مجبوری یہ تھی کہ میں ایک ایکسپائر ریجسٹریشن والی گاڑی کے ہوتے دوسری غیر ایکسپائرڈ گاڑی چلاتا پولیس کے سامنے سے گزرتا تو وہ روک کر فائن دے دیتے کہ تمہارے نام پر ایک ایکسپائر ریجسٹریشن والی موجود ہے، یہ پکڑو جرمانہ۔ ایسا میرے ساتھ دو بار ہوا۔ دونوں بار ابو ظہبی میں۔
گاڑی کی وہ اقساط جن کا وعدہ ہوا تھا وہ کبھی موصول ہوتیں کبھی نہ ہوتیں۔ اب تک مگر میں جان چکا تھا کہ وڑ چکے پیسے اور گاڑی دونوں۔ اب ایک آخری سال باقی رہ گیا ہے۔ پیو کڑوے گھونٹ، گاڑی کا کھاتا ختم کرواؤ اور آگے بڑھو۔ اچھا اس وقت تک میں اپنے زیرِ استعمال گاڑی کی پیمنٹ دوسرے بینک کو یکمشت ادا کرکے مکمل طور پر اپنے نام کروا چکا تھا۔ اب باقی تھی ممانی سلطانہ کے پاس پھنسی گاڑی۔ اب وہ بن رہی تھی ناسور۔
گاڑی کی حالت اس سے سال پہلے ہی ایسی ہوچکی تھی کہ دیکھ کر دکھ ہوتا۔ خیر اللہ اللہ کرکے گاڑی کی قسطیں ختم ہوئیں۔ کب ختم ہوئیں مجھے یاد نہیں تھا۔ بس ایک دن ممانی سلطانہ کی کال آئی کہ ہم گاڑی کی قیمت ادا کر چکے ہیں۔ اب گاڑی ہمارے نام کروا دو۔ میں نے بغیر اپنی جانب کسی کنفرمیشن کے کہا اوکے، اور بینک کال کر دی۔ پتہ چلا کہ وہ جو پانچ ہزار درہم قانونی چارہ جوئی پر لگے تھے وہ بھی میرے ذمے ہیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو اب تک میں ممانی سلطانہ اور ماموں طاہر سے سونڈ بھروا بھروا کر تھک چکا تھا۔ دوسرا میرا ترس بھی ختم ہوچکا تھا۔ تیسرا مجھے اب چڑ ہونے لگی تھی۔ اور چوتھا میں اب تک مروت میں مار کھانے کی بجائے انکار کرنا سیکھنے لگا تھا۔ سو۔۔ میں نے وہ پانچ ہزار روپے بھرنے سے انکار کر دیا۔
اب یہاں سے ممانی سلطانہ کا اصلی روپ سامنے آنا شروع ہوا۔
دیکھیے مجھے مذہبی احباب سے کوئی خار نہیں۔ لیکن منافق مذہبی مجھے ہضم نہیں ہوتے۔ میں نے پانچ ہزار درہم کی ادائیگی سے جڑا راس الخیمہ کورٹ کا کیس یاد کرایا تو جواب ملا اکاؤنٹ تو تمہارا تھا۔ میں نے یاد دلایا کہ رقم کی ادائیگی آپ کی جانب سے روکی گئی تھی تو آئیں بائیں شائیں۔ میں ابو ظہبی سے عجمان گھر گیا اگلوں کے۔ وہاں مجھے بتایا گیا کہ دیکھو یہ 5000 درہم اضافی سور کے زمرے میں آتا ہے اور سود حرام ہے۔ میری جل کر رہ گئی کہ ف چ پوری گاڑی سود پر اٹھائی ہے وہ یاد نہیں رہی۔ اپنی حرام خوریوں کا نتیجہ پانچ ہزار درہم سود ہے۔ خیر میں انکاری ہوگیا کہ میں تو اپنی جیب سے یہ پیسے واپس نہیں کر رہا۔
اب تک ممانی سلطانہ اور ماموں طاہر کو پتہ تھا کہ دو عدد آبگینے بہرحال ان کے ہاتھ میں ہیں۔ سو اب وہ انہیں دبانے پر اتر آئے۔ گاڑی کی ریجسٹریشن الحمد للہ پھر ایکسپائر تھی۔ اس بار فائن بھی زیادہ تھے۔ شاید تین ہزار درہم تک۔ پھر سے وہی حرکت، کہ گاڑی کی ریجسٹریشن کروانے سے بھاگیں۔ بہانہ وہی، غریب ہیں پیسے نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اس بار میں نے ایک پیسہ دینے سے انکار کر دیا۔ کرو 64-65 جو کرنا ہے۔
اس پر ہمارے ایک اور رشتہ دار کو تصفیے کی غرض سے بیچ میں لایا گیا۔ یہ خاتون ہماری بزرگ تھیں۔ انہوں نے دونوں جانب کی بات سنی۔ مفصل سنی۔ اور آخر میں مجھے کہا کہ بیٹا تم دے دو اللہ کی خاطر دے دو تم دے سکتے ہو۔ میری پھر ہٹ گئی، کہ "دے" تو اپنی سب سکتے ہیں تو کیا سبھی دے دیں؟ میں کیوں دوں۔ انہیں سمجھایا بلکہ واضح کیا کہ تین سال سے دے ہی تو رہا ہوں۔ اور کتنی دوں۔
اب چونکہ مجھے شدھ تپ چڑھ چکی تھی لہٰذا میں نے اپنے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرنے کا تہیہ کیا۔ پچھلے تین سال کی سٹیٹمنٹ چیک کرنے پر معلوم ہوا لیپ ٹاپ، ریجسٹریشن، انشورنس، غیر ادا شدہ اقساط وغیرہ سب ملا جلا کر کل تین ہزار پچیس درہم ابھی بھی واجب الادا ہیں۔ اب مجھے چڑھی مزید تپ۔ یعنی وٹ دا فک۔ دھوکہ اور پھر دھوکہ در دھوکہ؟
2018 تک میں آسٹریلیا امگریشن کا منصوبہ بنا چکا تھا جسے عملی جامہ 2019 میں پہنانا شروع کیا۔ 2020 میں میرا ویزا آگیا۔ ان دو تین سال میں اگلوں کے ترلے کرتا رہا یا پھر دبئی پولیس سے رابطہ، دونوں ہی میں ناکامی کا سامنا رہا۔ 2014 سے 2016 تک میں نے اس فیملی کو اپنا سمجھ کر ویسے ہی ٹریٹ کیا جیسے میں اپنوں کو کرتا ہوں۔ میرے اپنوں میں فیس بک کے چند دوست بھی شامل ہیں، دیگر دوست اور چند رشتہ دار بھی۔ سو جو اپنے ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ گھمانے پھرانے سے لے کر ریزارٹس میں موجیں کروانا اس دوران شامل رہا۔ 2016 سے 2019 کے دوران ماموں طاہر اور ممانی سلطانہ دونوں کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی بھی ہوئی۔ اس دوران بھی میری اہلیہ ان کے گھر رہ کر بچے سنبھال کر آئیں۔ اس سب کے علاوہ ایمرجنسی میں ماموں طاہر کی کال پر دیے گئے درہم الگ ہیں جن کا کوئی حساب ہی نہیں۔
اچھا اور سنیں۔ میرے پاس آفس کی طرف سے پوری فیملی کے لیے Axa Gulf کی ٹھیک ٹھیک اچھی انشورنس تھی۔ میں نے اپنا، اپنی قائد کا اور بیٹی کا انشورینس کارڈ شارجہ میں ایک سکول کے زمانے کے دوست کو دیا ہوا تھا جس پر ممانی دردانہ کبھی کبھار علاج بھی کرواتی رہیں اور دوا بھی لیتی رہیں۔ اچھا ڈاکٹر کو بھی میرے کافی دوست جانتے ہیں، اس کے گھر میں ہماری بابرکت محافل برپا ہوتی رہی ہیں۔
خیر۔۔ ممانی سلطانہ خرامی پن، معصومیت، مظلومیت، چرب زبانی، مذہبی منافقت اور انڈا چکی میں ید طولی رکھتی تھیں۔ مذہب کی آڑ لینا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ شاید آج بھی ہو۔
ماموں طاہر سے بڑا چھوڑو، کذب بیان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ماموں طاہر نے اس سب عرصے کے دوران تین چار بار کاروبار کیے، دو تین بار ایکسیڈینٹ، کئی عرصے بغیر ویزے کے رہے، ایک بار امریکہ پورے کنبے سمیت شفٹ ہونے کا منصوبہ بنایا، دو بار آسٹریلیا جا رہا ہوں اگلے ماہ کا قصہ۔ ماموں طاہر ایک عدد حرام خور تھے جنہوں نے اپنی ساری ذمہ داری ممانی سلطانہ پر ڈال رکھی تھی۔ ممانی سلطانہ۔۔ ممانی سلطانہ کیوں تھیں آج میرے پاس اس کا اندازہ موجود ہے۔ میرے لیے البتہ ان کے بچے بہت پیارے تھے۔
یہ ساری کہانی میرے امارات میں ساتھ رہے تقریباً تمام دوستوں کو معلوم ہے۔ مزید برآں آسٹریلیا آنے کے بعد بھی میں نے اس پر کام کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں مدد بھی فیس بک کے توسط سے بننے والے دوستوں سے لی۔
میری گاڑی کی کیا حالت ہوئی؟ مجھے نہیں معلوم۔ آج میری گاڑی کہاں ہے؟ نہیں پتہ۔ پہلے مجھے پھکی دی کہ وہ تو بیچ دی۔ پھر کہا سکریپ کر دی۔ میں دبئی پولیس کو شاید 2020 میں ای میل بھیج چکا ہوں کہ میں ملک چھوڑ چکا ہوں یہ میرا ایگزٹ ہے لہٰذا آئیندہ اس گاڑی کا بار مجھ پر اتنا ہی ہوگا جتنا اس کی ملکیت تک ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کو میں منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہوں مگر اب دل کا زور ختم۔
19 اگست 2021 کو میں نے ماموں طاہر کو آخری میسج بھیجا۔ اس وقت تک گاڑی کی رجسٹریشن ایکسپائر تھی اور اوپر سے 2300 درہم کے فائن پھر جمع ہوچکے تھے۔ ایک آخری بار یاد دہانی کروا کے۔۔ اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
اس سب کے بعد البتہ میں نے انکار کرنا سیکھ لیا اور ایک اور دو باتیں سیکھیں۔ ایک۔۔ مقعد سے بڑی ریح کسی اور کے لیے خارج نہیں کرنی چاہئے۔ دوسری۔۔ قرض اتنا دو جتنا واپس نہ ملنے پر دکھ نہ ہو اور یہ سوچ کر دو کہ واپس نہیں ملنے۔
ایک اور بات۔۔ گزشتہ روز بیگم صاحبہ نے بتلایا کہ تم نے جتنا ثواب کمایا تھا وہ یہ سب دنیا کر بتا کر ضائع کر دیا۔ میرا جواب یہ تھا کہ اول تو میں گناہ ثواب کے جھمیلے سے ذرا دور پہنچ چکا ہوں۔ دوسرا، میں نے تو ثواب کی غرض سے یہ کام کیا ہی نہیں۔ تیسری بات، اگر اوپر والے نے اس طرح ثواب گناہ کی بانٹ کرنی ہے تو میں گناہ گار ہی بھلا۔
مجھے کافی حد تک یقین ہے کہ یہ پوری داستان ممانی سلطانہ اور ماموں طاہر تک پہنچے گی ضروری۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو میں چاہتا ہوں آپ دونوں میری جانب سے فقط ایک فقرہ پڑھیں اور دل سے محسوس کریں۔۔
"آپ دونوں بہت ہی بڑے 64-65 ہیں"
(پچھلا فقرہ دائیں ہاتھ کی منجھلی انگل سے ٹائپ کیا گیا)
ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب