Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Mujrim, Mujrim Rehta Hai

Mujrim, Mujrim Rehta Hai

مجرم، مجرم رہتا ہے

آسٹریلیا میں لیبر اور لبرل سیاسی جماعتوں کے درمیان کئی میں سے ایک فرق یہ ہے کہ لبرل فرد کی نسبت کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ اب یہ حقیقت ہے کہ کاروبار چند افراد کو امیر سے امیر تر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ منافع عام لوگوں تک مساوی نہیں پہنچتا۔ اچھا اوپر اوپر سے آپ اس سے جو چاہیں نتیجہ اخذ کر لیں مگر اس پالیسی کے حق میں بات کرنے والوں کے نزدیک اگر کاروبار پھلے پھولے گا تو معیشت کو فائدہ پہنچے گا اور معیشت بہتر ہونے کا مطلب ہے اس حکمت عملی کے ثمرات بھی ایک اوسط شہری تک پہنچ سکیں گے۔

اس کی نسبت لیبر کی کوشش ہوتی ہے بڑے بزنس یا امراء پر ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگے اور ایک عام تنخواہ دار کو حتی الامکان براہ راست ریلیف دیا جائے۔ یعنی دونوں فریقین کا ہدف عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے تاہم حکمت عملی الگ الگ ہے۔ حکمت عملی کا یہی فرق مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف فیصلہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ مثلاً ماضی میں یہ تاثر رہا ہے (شاید اب بھی ہے) کہ کاروباری امیر طبقہ لبرلز کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے جبکہ اوسط آمدنی سے تعلق رکھنے والے فرد لیبر کو سپورٹ کرتا ہے۔ یعنی دولت کی فراوانی ہوجائے تو اسے اپنے پاس بچا کر رکھنے کی لالچ اور دولت نہ ہو تو دوسروں سے دولت چھینے جانے کی خواہش۔ کچھ دنوں پہلے لیبر حکومت نے سپروینویشن (ریٹائرمنٹ) فنڈ میں تیس لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم کے مالک افراد پر ٹیکس دوگنا کیا ہے۔ لیبر پارٹی نے اس پر خوب شور مچایا۔

یعنی جس کے پاس جس چیز کی کمی ہوگی اسے اسی کی چاہ ہوگی۔ یہ فطری بات ہے۔ لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غربت غریب کو آمادہ کرنے لگتی ہے کہ وہ ہر امیر کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔ فلسفے اور معیشت میں باچیز قریب قریب کورا ہے تاہم مشاہدہ یہی ہے کہ ہماری عوام الناس کسی بھی پیسے والے یا اپنے سے معاشی طور پر بہتر بندے کو دیکھ کر اس کے ساتھ منفی خصوصیات بغیر کسی ثبوت جوڑنا شروع کر دیتی ہے۔

یعنی "سالا امیر ہے دو نمبر طریقے سے کمائی کرتا ہوگا" تاہم "کاش مجھے بھی موقع ملے میں بھی ایسے ہی امیر ہوجاؤں" وغیرہ وغیرہ کا ارادہ پورا ہوگا۔ یقیناً سب ایسے نہیں ہوتے تاہم ارد گرد دیکھیے، سمجھ آجائے گی۔ "فلاں کتنا کھاتا ہے" دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ اگلا خود relatively اتنا کھانے کا اہل نہیں۔ اس معاملے کو کوئی سنجیدہ سینئیر بہتر پیرائے میں بیان کر دے تو باچیز شکرگزار ہوگا۔

لب لباب یہ کہ جس چیز کی خواہش ہو اسی کے ساتھ منفی خاصیت یا عمل جوڑ کر اسی کو مطعون ٹھہرایا جائے، تاہم موقع ملتے ہی اسی راہ کو اپنا کر وہی خواہش قبول کی جائے۔

لفظ "مشہور" ایک relative اصطلاح ہے، خاص کر ان کے لیے جنہیں اس کی خواہش ہو۔ دو اور دو چار ایک حقیقت ہے تاہم دو اور دو چار روٹیاں اندر دبی خواہش کا پتہ دیتی ہے۔ ایسے ہی کسی حقیقت کے اظہار پر لوگوں کی جانب سے اٹھتے الزامات اکثر اوقات لوگوں کے اندر کی دبی خواہشات کا پتہ دیتے ہیں۔ مزید اندازہ ایسے ہوجاتا ہے جب یہ الزامات بے تکے بھونڈے انداز میں لگائے جا رہے ہوں۔

اصول وہ ہوتا ہے جس کا اطلاق ایک ہی نوعیت کے مختلف معاملات پر کیا جائے اور نتائج اصول کے مطابق نکلیں۔ منطق، اصول یہی ہے۔

ظاہر جعفر نے ایک جرم کیا۔ نور مقدم کا بہیمانہ انداز میں قتل کیا۔ اس پر ہزاروں لوگوں نے اس پر آواز اٹھائی۔ کیا کسی نے اٹھ کر کہا کہ "بس کرو کہیں ظاہر جعفر خود کشی نہ کر لے"؟ یا پھر، کسی نے ایسا کچھ کہنے کی کوشش کی کہ "ظاہر جعفر یا اس کے قتل پر بول کر فلاں مشہور ہونا چاہتا ہے؟" کیا اتحادیوں نے ہٹلڑ کو سزا دینے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ کہا کہ یار ایسا نہ ہو اگلا خود کشی کر لے؟

کسی نے مسولینی کو الٹا لٹکانے کا مطالبہ کرنے والوں کو کہا کہ تم یہ اپنی انا کی تسکین کے لیے کر رہے ہو؟ کیا کسی نے کبھی یہ کہا کہ جن لوگوں نے موٹروے پر خاتون کا ریپ کیا چونکہ انہوں نے ان کا ریپ نہیں کیا تو وہ کیوں انہیں غلط کہہ دیں؟ کیا کسی نے قاری صاحب کی جانب سے مائنر کا ریپ سامنے آنے پر کہا کہ پتہ نہیں جب مائنر خود قانون سے رابطہ نہیں کر رہا تو یہ لوگ کیوں اس بارے میں بول رہے ہیں؟

نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ نہ ہی ایسا ہونا بنتا ہے۔

لہذا جہاں کوئی یہ کہتا نظر آئے کہ فلاں کی کردار کشی کرکے فلاں مشہور ہونا چاہتا ہے تو اس فلاں ولد فلاں پر غور کیجئے گا، درحقیقت اگلا کسی مردہ کردار فلاں کے مردہ کردار کا دفاع کرکے اپنے چھولے بیچنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ ایسے چھولے کے چھولے بک جائیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں، چھولے بک رہے ہیں تو ہلکی پھلکی بکری تو ہوگی۔ بھئی شہرت کی دبی خواہش سامنے آرہی ہے، بھلے کسی چمن چوٹیے کے حق میں لکھنے سے ہی کیوں نہ ملے۔

اقرباء پروری پر ہڑبونگ مچائی جا سکتی ہے البتہ اصول نہیں بدلے جا سکتے۔ مجرم بہرحال مجرم ہی کہلایا جائے گا، ڈنکے اور ڈنکیوں کی چوٹ پر کہلایا جائے گا۔ چندا۔۔ اس میں نالاں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

قصہ مختصر۔۔ کم چک کے رکھیں۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid