Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Maaz Bin Mahmood/
  4. Establishment, Sahafat Aur Zaatiat

Establishment, Sahafat Aur Zaatiat

اسٹیبلشمنٹ، صحافت اور ذاتیات

اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار بعض حلقوں کے نزدیک روز روشن سے زیادہ عیاں ہے۔ اس پر کوئی دو رائے ہی نہیں۔ یہ تو بلکہ ایسی حقیقت ہے جس پر اللہ کے فضل و کرم سے ہر دو حلقوں کا اتفاق ہے، یہاں تک کہ میری آنکھوں کے گرد موجود دونوں حلقے بھی اس بات پر متفق ہیں۔

صحافت کے نام پر عمران ریاض تا حامد میر ہم نے خود پسند یا ناپسند کیے ہیں۔ مطیع اللہ جان جب کسی ایک فریق کے لیے میٹھے ہوتے ہیں تو انہیں چاٹا جانا شروع کر دیا جاتا ہے وگرنہ سچائی پر مبنی کڑواہٹ کے ہاتھوں وہ اکثر حلق کے اس پار پہنچ ہی نہیں پاتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ریاست کی تزویراتی گہرائی میں کامیابی پاک فوج کے باعث ممکن ہونے کا بیانیہ درست مانا جاسکتا ہے تو ہماری اعلیٰ سیاسی اقدار میں صحافی برادری کا کردار بھی ارفع ترین مان لیتے ہیں، الا یہ کہ ہماری ریاستی ترقی اور سیاسی اقدار سے زیادہ سانٹا کلاز اور یونی کارن اکثر اوقات حقیقی لگتے ہیں۔

ذاتیات کی تو کیا ہی بات کی جائے۔ اس کا دوش کسی عسکری ادارے یا صحافی بابے کو دینا ان دونوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ایک جانب ہمارے تھڑے باز چاچے براہ راست تیری ماں تیری بہن تیری بے بے سے آغاز کرتے ہیں تو ہمارے یہاں کے سید مبشر زیدی براستہ شجرہ وہی ماں بہن و جد اجداد پر گالیاں ذرا نستعلیق انداز میں دیتے عام دیکھے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں سب سے زیادہ شئیر ہونے والی ویڈیوز وہ نجی ٹوٹے ہیں جو نجی معاملات خراب ہونے کے بعد ہمارے واٹس ایپ کی زینت بن جایا کرتے ہیں۔

تو جب اونٹ کی کوئی سی کل سیدھی ہی نہیں تو پورے اونٹ سے سیدھا ہونے کی توقع ایسی ہی ہے جیسے زرداری صاحب سے وعدے پورے کرنے کی امید، میاں صاحب سے ملک میں رہنے کی امید اور خان صاحب سے۔۔ چلیے اسے جانے دیتے ہیں۔

خاور مانیکا نے گزشتہ شب شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیا ہے جو بیک وقت اسٹیبلشمنٹ، صحافت، ذاتیات بلکہ سیاست کے زوال کی بھی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس انٹرویو کے متن سے قطع نظر، اس انٹرویو کو نشر کرنے کا وقت نہایت دلچسپ ہے۔

انٹرویو میں جتنی بھی باتیں کی گئیں تمام کی تمام 2018.2019 کے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ سوال بالکل جائز ہے کہ خاور مانیکا اتنے ظلم جھیل رہا تھا تو پہلے کیوں نہ بولا؟ کیا وجہ ہے کہ مانیکا 2018 یا 2023 جب بھی بولا وہ وہی وقت رہا جب فوجی بھائی کسی نہ کسی کے خلاف الٹرا پرو میکس درجہ متحرک تھے، یا ہیں؟ کیا وجہ ہوئی کہ شاہزیب خانزادہ کو جیو کے پلیٹ فارم سے یہ انٹرویو کرنا پڑا، اب کی بار کامران خان وغیرہ کو استعمال نہیں کیا گیا؟ پچھلوں کی کریڈبلٹی صفر ہوچکی تھی سو نئی پیڑھ کا سہارا لیا گیا؟

مگر کیا ایک انٹرویو کے ہوجانے سے وہ تمام گند ختم ہوجائے گا جو اسٹیبلشمنٹ کے پچھلے کارنامہ جات کی وجہ سے پیدا ہوا؟ کیا اس پر بات کرنا ختم کر دینا چاہیے؟ اسے بھی چھوڑیں، ہم ان تمام معاملات کو ایک ہی رخ دینے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ کیا ایک انٹرویو کا ہو جانا اس کے متن کو یکسر غیر متعلقہ کر دیتا ہے؟ کیا اس انٹریو کے متن میں بدعنوانی پر بات نہیں ہوئی؟ کیا اسے بھی اپنی مذمتوں کی نظر کر دیں؟ کیا مانیکا پر ہوئی غیر قانونی مہربانیوں پر بھی بات اس لیے نہ کی جائے کہ فوجی بھائی خان صاحب سے بدلہ لے رہے ہیں؟

ہاں یہ بھی مان لیا کہ شادی کے بندھن میں بندھنا یا زہریلی زندگی سے طلاق لے کر زندگی کو قدرے پرسکون بنا دینا فرد کا ذاتی معاملہ ہے، انتخاب ہے اور اسے معاشرے میں ٹیبو یا برا نہیں سمجھا جانا چاہیے لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ کورٹ شپ میں رہتے ہوئے سیلیبرٹیز کی جانب سے ایکسٹرامیریٹل افئیرز کو دنیا بھر میں ناپسندیدگی کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک بڑا موضوع بحث ہے مگر پولیٹیکل کریکٹنیس کے باعث اس پر بات ہی نہ کرنے کا اصرار کیا جائے تو اتنی مناسب بات شاید یہ بھی نہیں۔ ڈومیسٹک ابیوز کی سب سے کامن شکل کسی بھی قسم کا تشدد ہے اور تشدد کی سب سے کامن صورت ہاتھ اٹھانا ہے لیکن کیا ہم سب جانتے نہیں کہ نفسیاتی اذیت بھی ایک چیز ہوتی ہے؟ میرے خیال سے تو ایک فریق کی جانب سے اپنے پارٹنر پر ثبوت کے عدم میں شک کرنا بھی نفسیاتی تشدد ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو پارٹنر کا کورٹ شپ سے باہر جائے بغیر سرعام افئیر رکھنا بھی ایک اذیت۔ نہیں؟ لیکن چونکہ اسٹیبلشمنٹ اگلے کو استعمال کر رہی ہے تو اس پر بات کرنا ہی ممنوع یا غیر اخلاقی قرار دینے کا تاثر دیا جائے؟ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ شاید ضرورت ہے۔

اور پھر ایک اور بات جو شاید زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔۔

یہ سب آوازیں بھلا کون سے کیمپ کے بارے میں بلند ہو رہی ہیں؟

سرکار۔۔ یہ وہی جتھے ہیں جو ریاستِ مدینہ کی متواتر تکرار کے ذریعے مذہب کارڈ کھیلتے رہے۔ ان کے مربی رضوی کو میدان میں اتار کر مذہب کارڈ کھیلتے رہے۔ بخدا کل ایک گروپ میں ایک ڈائی ہارڈ انصافی کی پوسٹ دیکھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ نواز شریف کے ننھیال سے لے کر موجودہ آرمی چیف سبھی احمدی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا یہ تمام پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ کیا اس میں بیک وقت قادیانی مخالف جذبات کا ابھار اور سیاسی مخالفین کے خلاف مذہب کارڈ کا استعمال نہیں؟ نہیں بھئی، یہ اب بھی نہیں سدھرے۔ کیا ہمیں اچھی طرح معلوم نہیں کہ خان صاحب اور ان کے ہینڈلرز جس شدت سے اپنے مخالفین کو گرانے میں لگے پڑے تھے اس بیچ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ اور اب ان سب کا ذکر اس لیے نہ ہو کہ اب اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو گود لے لیا ہے؟ کیا طارق جمیل کو مذہبی جذبات استعمال کرتے ہوئے خان صاحب کے حق میں بیانیہ استوار کرتے نہیں دیکھا ہم نے؟ کیا ہم نے نہیں سنا کہ خاتون اول قوم کے لیے رول ماڈل ہیں؟ میرا اشارہ خدانخواستہ کردار کے اوپر نہیں، بس اتنا ہے کہ جب طارق جمیل کے ذریعے ایک توہم پرست کو قوم کا رول ماڈل قرار دے کر ہمیں احمق بنایا جا رہا تھا، تب بھی ہمیں مذہب کارڈ پر ہی اعتراض تھا ناں؟ کیا practice what you preach کی خلاف ورزی زیادہ نہیں چبھتی؟ پھر حاجی عمران خان نیازی صاحب جو تبلیغ خود کرتے رہے، ہاتھ میں تسبیح گھماتے ایاک نعبد وایاک نستعین سے آغاز کرتے جھوٹ در جھوٹ بولتے رہے، کیا ہمیں معلوم نہیں کہ خان صاحب اس تصویر کے یکسر الٹ ہیں لہٰذا یہ جھوٹ اور منافقت ہے؟ اور کیا اس جھوٹ کو جھوٹ اور اس منافقت کو منافقت کہنا صرف اس لیے غلط ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کروا رہی ہے؟

نہیں جناب۔۔ ایسے تو نہیں ہوتا ناں۔ ظاہر ہے ٹنوں کے حساب سے بولے گئے جھوٹ کے خلاف کوئی آواز بھلے اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر بھی آئے تب بھی، اس بات کو سننا تو پڑے گا۔

بس وہی کر رہے ہیں۔ وہی کرنے کا کہہ رہے ہیں، چاہے سیاسی تعصبات کے اس جانب سے ہو یا اس طرف سے۔

میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار سمیت ان کا زمانہ حاضر یا مستقبل میں ساتھ دینے والوں پر دو حرف بھیجتا ہوں، لیکن یہی دو حرف ماضی کے ہر اس گندے کردار پر بھی بھیجنے ہوں گے جنہوں نے ایک بار پھر انہیں دوام بخشنے میں پورا کردار ادا کیا۔ پھر اس میں شاہزیب خانزادہ آئے، عمران ریاض، مانیکے آئیں یا وٹو، شریف شامل ہوں، زرداری شامل ہوں یا پھر نیازی۔

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas