Dhol Ki Thaap
ڈھول کی تھاپ
سفید پوشی تھی۔ کوئی خاص امارت نہیں تھی۔ بس بھرم تھا کہ گوشت کھانے میں کوئی دقّت نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی بھی تھی تو باپ کو ہی ہوتی تھی۔ باپ نے محسوس نہ ہونے دیا مگر کبھی کہ ایسا کوئی احساس بھی ہے، اگر ہے تو۔ خدا جانے احساس تھا یا نہیں، بس کبھی ظاہر نہ کیا۔
وہ پشاور میں رہتے تھے۔ ددھیال سے دور، ننھیال سے بہت دور۔ دور کے ڈھول بھی کچھ الگ ہی سہانے ہوتے ہیں۔ قریب جا کر سنا جائے تو کان پھٹنے لگتے ہیں۔ مگر کان تباہ کرنے کے لیے قریب جانا ضروری ہوتا ہے۔ آگ سے جب تک جلن کا احساس نہ ہو، شمع سے کھیلنا ایک حسین خواہش رہتی ہے۔ بجتے ڈھول جب تک کان نہ پھاڑیں، بھلے محسوس ہوتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح اس عید پر بھی انہوں نے اکیلے ہی رہنا تھا۔ پھر مگر یہ ہوا کہ پشاور میں واقع ایک بہن نے یہ عید راولپنڈی باقی کی بہنوں کے ساتھ گزارنے کا اعلان کیا۔ باپ نے سوچا بچے کیا ہر بار کی طرح اس بار بھی عید گھر گزاریں گے۔ بہن کو کہا کہ ممکن ہو تو اپنے دو بھانجوں اور بھانجی کو بھی راولپنڈی لے جاؤ۔ بہن پتہ نہیں کیسے مگر مان گئی۔ بچے دور کے ڈھول کی خوشخبری سن کر بہت خوش ہوئے۔
سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں عید کی نماز پڑھنے گئے۔ اس دن بچوں کو والدین کی بہت کمی محسوس ہوئی۔ لیکن بچے تھے سو جلد اداسی بھول کر کھیل کود میں لگ گئے۔ باپ نے اپنے حصے کی عیدی دے کر بھیجا تھا۔ مزید عیدی باقی لوگوں سے ملی۔ بچے خوش تھے۔ بہت خوش۔ ڈھول ابھی بجنا تھا۔
اگلے روز یعنی عید کے دوسرے دن کی شام گھر میں شور اٹھا کہ فلاں بچے کی عیدی سے پچاس روپے غائب ہیں۔ ان دنوں کل عیدی ہی دو ایک سو روپے جمع ہوا کرتی تھی۔ پچاس روپے غائب ہونا خبر تھی مگر اتنی بڑی نہیں۔ اس خبر کو البتہ بڑا بلکہ بہت بڑا بنا ضرور دیا گیا۔
ڈھول بجنے والا تھا۔
پچاس روپے کی گمشدگی کو منٹوں میں چوری کا معاملہ بنا دیا گیا۔ گھر میں موجود بڑوں خاص کر خواتین نے اچھا خاصہ شور مچانا شروع کر دیا۔ اب ممکنہ ملزمان کی نشاندہی پر کام شروع ہوا۔ چھت پر ایک کتا بندھا ہوتا تھا مگر اس وقت یوں لگتا تھا جیسے ہر بندہ ہی سراغ رساں کتا ہو جو سونگھ کر چور کا تعین کرنے کے بہت قریب ہو۔ چور کی پروفائلنگ شروع ہوئی تو کردار پر دھبے کا واحد معیار ماں باپ کا ساتھ ہونا یا نہ ہونا طے پایا۔
ڈھول بجنا شروع ہوچکا تھا۔
اس "سنگین جرم" پر شک ان تینوں پر ہی گیا جن کے ماں باپ ساتھ نہیں تھے۔ موبائل وغیرہ کا دور نہ تھا لہذا اب جو ہونا تھا انہی تینوں بچوں نے سہنا تھا۔ اس وقت سب سے بڑے بھائی کی عمر کوئی تیراں برس ہوگی۔ منجھلا دس برس اور سب سے چھوٹی بہن آٹھ برس کی ہوگی۔ تحقیقات کا آغاز ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ تفتیش ضروری ہے۔
ڈھول کی آواز اب تیز ہو رہی تھی۔
سب سے پہلے بڑے بیٹے کو اکیلے میں بلایا گیا۔ اس کی عیدی کی بابت سوال کیے گئے۔ اس نے اپنی عیدی سامنے رکھ دی۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا پوری ہے۔ اسے دھمکایا گیا ڈرایا گیا۔ مذہب میں چوری کی سزا کے بارے میں احکام سنائے گئے۔ اس نے سب کچھ سنتے ہوئے بھی عائد فرد جرم سے انکار کیا۔ خوب ڈرانے دھمکانے کے بعد جرم قبول نہ کیا گیا تو اسے چھوڑ دیا گیا۔
ڈھول کی تھاپ اب کانوں میں لگنا شروع ہوچکی تھی۔
اس کے بعد منجھلے بچے سے تفتیش ہوئی۔ وہ گھبرایا ہوگا۔ خوف زدہ بھی تھا مگر چونکہ مجرم نہ تھا لہذا نہیں مانا۔ اسے بھی ہاتھ کاٹنے سے لے کر تھپڑ مارنے تک کی دھمکیاں دی گئیں مگر وہ بھی صحت جرم سے انکاری رہا۔ تنگ آکر اسے بھی چھوڑ دیا گیا۔
ڈھول کی تھاپ سے اب سر میں درد شروع ہوچکا تھا۔
سب سے آخر میں چھوٹی بیٹی کو بلایا گیا۔ یہ سب اس معصوم کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہی دھونس دھمکی کا راگ الاپا گیا۔ اس کی عیدی بھی گنی گئی۔ اسے بھی ڈانٹ ڈپٹ کا شکار کیا گیا۔ مجرم ہوتی تو شاید مان لیتی۔ اس نے بھی اقبال جرم سے انکار کیا کیونکہ جرم اس کے بقول اس نے کیا ہی نہ تھا۔ اسے بھی کمرے سے باہر جانے کا حکم ملا۔ بھائیوں کی نسبت البتہ وہ روتی ہوئی باہر آئی۔
اب ڈھول کی آواز سے کان پھٹ چکے تھے۔
اس شام ہی بڑے بیٹے نے کچھ بنتے ہی رشتہ داروں کو باقی کی زندگی شہباز گل پر رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔