Bhashan Banam Zaid, Bakar, Suraiya Waghera
بھاشن بنام زید، بکر، ثریا وغیرہ
انسان جذبات اور منطقی سوچ کی آمیزش کا ایک ایسا نمونہ ہے جسے دیگر مخلوقات کی نسبت اظہار خیال کی وسیع ترین صلاحیت حاصل ہے۔ یہ صلاحیت کسی اور مخلوق میں اس قدر سے موجود نہیں جس طرح انسان کو عطاء کی گئی ہے۔ اپنی رائے کے اظہار کی اسی صلاحیت کے باعث انسان اپنی سوچ، سوچ پر مبنی خیالات، خیالات پر مبنی نظریات اور نظریات پر مبنی ارادوں کو دوسرے انسانوں تک پہنچا سکتا ہے۔ چونکہ اپنی سوچ کے اس اظہار کو سمجھنے کی صلاحیت بھی ہر باشعور انسان میں موجود ہے، لہذا کہنے، سننے اور سمجھنے کی یہی صلاحیت انسانوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی بنیاد بنتی ہے۔
گویا تعلق کی گاڑی کے پہیے ایک جانب سوچ کر بولنے، اور دوسری جانب سن کر سمجھنے پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ خیالات کے اظہار اور دوسری جانب سمجھنے میں لچک ناپید ہو تو یوں سمجھ لیجئے جیسے گاڑی شاکس کے بغیر بنا دی گئی ہو۔ ایسی گاڑی جلد ہی جملہ انواع کی آوازیں نکالنا شروع کر دے گی اور بہت جلد بغیر کسی رکاوٹ سے ٹکرائے اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔
بھاشن سننے میں اچھے لگتے ہیں، تکلیف البتہ انہیں اپنی ذات پر لاگو کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک فرد دوسرے کے بارے میں کسی بھی غلط فہمی کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرے تو وہی غلط فہمی اپنے اندر ڈھونڈنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ بھاشن یہاں یہ ہے کہ اپنی رائے کے غلط ہونے کا امکان ہمیشہ زندہ رکھنا چاہئے۔ یقیناً یہ کہنا آسان ہے تاہم کر گزرنے کے لیے اپنے دماغ کا جذباتی حصہ قدرے غیر فعال جبکہ دلیل پیدا کرنے والا حصہ اسی قدر مزید فعال کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ ایک بار شروع کر دیا جائے تو دماغ ایک خودکار طریقہ کار بہت جلد اپنانا شروع کر دیتا ہے جس کے تحت انسان practice what you preach کا عملی نمونہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی رائے میں لچک البتہ ہر دور میں زیادہ سے زیادہ رکھنی ضروری ہے۔
ثریا ایک بات کرتی ہے جو اپنی اصل میں غلط ہے۔ اب ممکنات دو ہیں۔ ممکن ہے ثریا نے منطق سے زیادہ جذبات کے زیر اثر یہ بات کی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ثریا نے جان بوجھ کر کسی منطق کے تحت یہ غلط بات کی ہو۔ زید اور بکر کا اس معاملے کو دیکھنے کا زاویہ مختلف ہو سکتا ہے۔ زید اگر ثریا کی اس غلط بات کو جذباتیت کا شاخسانہ سمجھتا ہے تو زید کی نظر میں ثریا بیوقوف ہے۔ بکر کے خیال میں ثریا نے جان بوجھ کر یہ بات کی مطلب بکر ثریا کو ایک شاطر انسان سمجھتا ہے۔
معاذ بن کر دیکھوں تو میرے لیے زید ایک خوبصورت سوچ کا مالک ہے جبکہ بکر مثبت فکری ارتقاء کے سفر میں اثبات سے فی الحال دور ہے۔ ثریا نے جو کہنا تھا کہہ دیا لیکن اس سے صدمہ زید کو نہیں بکر کو ہوگا کہ بکر کی سوچ ثریا کے خلاف منفی جذبات کو جنم دے گی۔ بکر کی سوچ میں لچک کا فقدان بکر کی سوچ کو سنجیدہ صدمات سے دوچار کرانے کا مرتکب ٹھہرے گا۔
زید زندگی میں مثبت پہلو کا متلاشی رہے گا، منفیت سے دور بھاگے گا اور منفیت سے دوچار ہونے پر اسے نظر انداز کرنے کی جانب چل پڑے گا۔ یوں زید خدا کی صفت بے نیازی کا حامل بنتا رہے گا۔ دوسری جانب بکر کے دماغ میں منفیت بڑھتی رہے گی اور وہ اپنے فکری ارتقاء میں ریورس گئیر لگائے چلا جا رہا ہوگا۔ زید کی سوچ میں مثبت سکون جبکہ بکر کی سوچ میں منفی تلاطم بڑھتا رہے گا۔
اور یہ سب کچھ صرف ایک چھوٹے سی بنیادی تصور کے باعث ہوتا رہے گا۔ تصور اپنی رائے میں لچک نہ پیدا کرنے کا، دوسروں کی غلطی کو ایج نہ دینے کا، ذاتی سکون کی تلاش میں منفی باتوں کو نظر انداز کرنے کا۔
کوشش کیجیے کہ اپنی زندگی کے سفر میں ہر ثریا سے واسطہ پڑنے پر زید بنیے ناکہ بکر کہ بکر کی زندگی کٹھن ہے، وہ اپنی نظر میں مظلوم ہے، دنیا بھر اس کے ساتھ زیادتی کرتی ہے جبکہ زید دیگر انسانوں کے ساتھ فکری ہم آہنگی کی جانب چلنے کے ساتھ ساتھ بے نیاز بھی ہے۔
اور بے نیازی خدا کی صفت ہے۔