Aik Adad Zaati Hikmat e Amli
ایک عدد ذاتی حکمت عملی
ایک عدد غیر مشہور انگریزی ضرب المثل ذرا سی ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔۔ "اگر آپ مشکل سے بچ نہیں سکتے تو اس سے لذت کشید کرنا سیکھ لیجئے"۔
یہ ضرب المثل لائیٹر نوٹ پر پیش کی گئی ہے اور باچیز اس کے اصل ورژن کے لغوی پیغام سے ہرگز سہمت نہیں، تاہم تمہید میں ایسی حساس بات کا مقصد اس میں سے اخذ کی جانے والی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی کیا ہے؟ اس پر بات کرتے ہیں۔
ہم سب بطور انسان یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم سدا خوش رہیں۔ اس ضمن میں بہت سے کام ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں جو ہم ممکن ہونے کے سبب کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ خوشی کسی بھی صورت ہو سکتی ہے، بس کسی معاملے میں کم ہوگی، کسی میں زیادہ اور کسی میں بہت زیادہ۔ ایک شراب نوش کو اچھی شراب خوش کرتی ہے۔ کسرت کے شوقین جم میں خوش رہتے ہیں۔ کوئی اپنے مشغلے میں خوش رہتا ہے۔ غرضیکہ بہت سے کام ایسے جن پر اختیار ہو، انہیں اپنا کر اختیاری خوشی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم خوشی کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ ایک ہی کام پچیسویں بار کرتے ہوئے شاید ویسی خوشی نہ ملتی ہو جو پہلی دوسری یا تیسری بار کرکے ملی ہوگی۔ لہٰذا مشغلہ یا ایسا کوئی بھی اختیاری کام جس سے خوشی کشید کی جا سکتی ہو، اس میں وقفہ دینا عموماً بہتر رہتا ہے۔
پھر کچھ خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں کسی غیر اختیاری خبر یا ہماری خواہش پوری ہونے پر ملتی ہے۔ مثلاً حکومت اچانک موبائل فون پر ٹیکس ختم کر دے، مثلاً عمران خان تاحیات نااہل ہو جائیں، مثلاً ہماری پسندیدہ ٹیم جیت جائے یا مثلاً آپ کا پرائز بانڈ نکل آئے۔ یہ سب ایسی متوقع یا غیر متوقع خوشیاں ہیں جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہاں البتہ ہماری خواہش ضرور ہوتی ہے کہ ہمیں ایسی خوشیاں ہمیشہ ملتی ہی رہیں۔
یہ تو ہوگئیں خوشیاں۔
لیکن پھر آتے ہیں دکھ، بری خبریں اور لوگوں کے رویے جو ہوش سنبھالنے سے آخری لمحات تک سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو متوقع بھی ہو سکتے ہیں غیر متوقع بھی، تاہم ان کو روکنے میں ہمارا اختیار کوئی نہیں ہوتا۔ ہم انہیں یکسر دفعان نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر کسی کی جانب سے دھوکہ دہی، کسی کی جانب سے ماں بہن کو گالیاں، پیٹرول کی قیمت کا بڑھ جانا، جاب پر ٹاکسک ماحول ہوتے ہوئے ملازمت نہ بدل پانا وغیرہ وغیرہ۔ آپ ان سے دکھی ہوتے ہیں اور ان سے جان بھی نہیں چھڑا سکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مسئلے کو آپ ختم نہیں کر سکتے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ مثلاً ورک پلیس پر چاپلوسی کا ماحول، تنخواہ تاخیر سے آنا، پیٹرول کی قیمت بڑھ جانا، یا کسی بہت اپنے کی جانب سے دھوکہ یا کوئی ایسی بات جو دکھی کر چکی ہو۔ ان حالات کا سامنا ہونے پر کیا کرنا چاہئے؟
اللہ معاف فرمائے فیلنگ تو موٹیویشنل سپیکر والی آرہی ہے لیکن اس بارے میں کسی زمانے میں میں کافی سوچ بچار کرنے کے بعد ایک حکمت عملی پر پہنچا جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں کیا گیا ہے۔
دیکھیے آپ کی زندگی کا ایک آپریشنل پہلو ہے جبکہ دوسرا جذباتی زاویہ۔ آپریشنل معاملات وہ ہیں جو کاروبار زندگی کے لیے لازمی ہیں، جن میں جذبات کا عمل دخل ہو نہ ہو وہ افعال آپ نے سرانجام دینے ہی دینے ہیں۔ آپ نے اگر دفتر یا دوکان پہنچنا ہے تو پہنچنا ہے پھر بیچ میں کتنا ہی ٹریفک جام کیوں نہ ہو۔ بجلی کا بل آیا ہے تو بھرنا ہی بھرنا ہے، چاہے کتنی ہی تپ کیوں نہ چڑھے۔ کوئی مائی آپ کو لگاتار گالیاں دے یا دلوا رہی ہو، آپ نے اپنا وقت تو گزارنا ہی ہے۔
ان تمام معاملات پر ایک حد تک دکھی ہونا فطری ہے۔ تاہم کسی بھی دکھ یا غصے کو اس حد تک محسوس کرنا اور پھر کرتے ہی رہنا کہ جس سے روزمرہ کے آپریشنل معاملات پر اثر پڑے، اس سے نکلنا سیکھنا ہوگا۔ اور اس سے پہلے خود کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اس کا فائدہ نہیں نقصان ہی نقصان ہے۔ پیٹرول مہنگا ہونا ہے، ہوگیا۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں؟ نہیں۔ پھر اپنا دل جلانے کا کیا فائدہ؟ یا تو کوشش کیجیے متبادل ذرائع آمدن کی، جو کم از کم میرے لیے تو ایک عرصے تک پیدا کرنا شدید مشکل رہا۔ میں صبح نو سے رات نو تک کام کرتا تھا۔ بچت کوئی ہوتی نہیں تھی۔ لہٰذا کچھ نہیں کر سکتا۔ حل یہ نکالا کہ پیٹرول کی قیمت پر توجہ دینی ہی چھوڑ دی۔ اور یہ عادت ایسی پڑی کہ مجھے ابھی بھی کوئی خاص نہیں معلوم ہوتا کہ پیٹرول کیا بھاؤ چل رہا ہے۔ یہی بات باقی کی مہنگائی پر بھی ہے۔
جہاں تک دوسروں کے رویوں سے دکھی ہونے کی بات ہے، میرا خیال ہے اس دکھ کا مآخذ وہ امیدیں ہیں جو ہم دوسروں سے رکھتے ہیں۔ مجھے عموماً کسی سے کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایک وقت تک ہوتی تھی۔ پھر اتنے دھوکے اتنی وعدہ خلافیاں دیکھیں کہ اب کسی سے کوئی آس امید ہی نہیں رہی۔ سو اب سب اچھا ہے۔ میں ایف ایس سی میں بہترین پیپر دے کر آتا تھا لیکن خود کو یہ بات سمجھاتا کہ نمبر بس پاسنگ مارکس کی حد تک ہی آئیں گے۔ ایسی امید لگانے کے بعد پچاس نمبروں پر بھی بندے کا ناچنا برحق ہوتا، گو میرا ایف ایس سی کا نتیجہ بہترین ہی رہا تھا۔
کوئی فائدہ نہیں امید لگانے کا۔ اپنی زندگی کے آپریشنل معاملات پر روبوٹ کی طرح کام کرنا سیکھیں، اور اپنے لیے خوشیوں کی بجائے سکون کے ذرائع دیکھیں۔ اپنی اولاد کی جانب دیکھیے، سکون ملتا ہے تو انہیں دیکھا کریں۔ میں نے کبھی کچن میں قدم نہیں رکھا تھا۔ جب داخل ہوا تو بہت عجیب سا خوشگوار سا سکون نصیب ہوا۔ میں نے کچن میں زیادہ سے زیادہ جانا شروع کر دیا۔ آج بھی چکن کڑاہی بنا کر کھا اور کھلا کے بیٹھا ہوں۔ میں نے باغبانی شروع کر دی۔ فشنگ پر دوبارہ سے دھیان دینا شروع کیا۔ فلمیں بلکہ کبھی کبھار گیمز بھی کھیل لیتا ہوں۔ آپ کا سکون ہی آپ کو پرسکون کرے گا، اور غم و غصے کو نظر انداز کرنا اپنے لیے سکون کی تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
لیکن اس سب کے لیے سب سے پہلے آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ کون کون سے معاملات ایسے ہیں جنہیں بجائے اس کے کہ آپ ڈرائیو کریں، آپ انہیں ڈرائیو کر سکتے ہیں۔ پھر ان معاملات میں اپنا اینڈ دیکھنا ہے کہ آیا کوئی بہتری کی گنجائش آپ کی جانب ہے؟ ہے تو اس پر کام کیجئے۔ نہیں ہیں تو دل جلانا چھوڑ دیجیے۔
زندگی سے سکون و آرام کشید کیجئے۔ کم از کم کوشش تو لازمی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ڈھونڈیے۔ میرے ہوم آفس میں سفید لائٹ آن رہتی ہے۔ ایک دن میں ڈھونڈ کر فلپس کی ایک الگ سی ایل ای ڈی لے آیا۔ لائٹ آن کی تو سفیدی ہی سفیدی، روشنی ہی روشنی۔ اپنے ایک جگری سے گھنٹہ ایک اس پر بات کرتا رہا اور روشنی کے چسکے لیتا رہا۔ نکی نکی، چھوٹی چھوٹی مائیکرو خوشیاں ڈھونڈیں، اور ان میں کھو کر ہر اس چیز کو نظرانداز کریں جس سے دل جلتا ہو۔ آپ کا دل جلنے کے لیے نہیں بنا۔ جس وقت آپ نے یہ بات سمجھ کر اپنی زندگی میں لاگو کر ڈالی، آپ resilient ہوجائیں گے۔
تب۔۔ اور یقیناً تب۔۔ جب آپ اپنے سکون سے آشنا ہوچکے ہوں گے۔۔ تب۔۔ آپ کا ذہن یہ ہنر بھی جان جائے گا کہ کولڈ بلڈڈ ٹھنڈا ٹھار خرامی بن کر ان مخنچو لوگوں کا دل کیسے جلایا جا سکتا ہے جو آپ کے سکون میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہو۔
یاد رہے۔۔ اپنا ذہنی سکون سپریم ہے۔ جو اس میں رخنہ ڈالے، اس کا دل اتنا جلاؤ اتنا جلاؤ اتنا جلاؤ کہ وہ اپنا کام کاج چھوڑ کر آپ پر چیاؤں چیاؤں شروع کر دے۔ اور جس وقت وہ شدید ترین چیاؤں چیاؤں کر رہا ہو، آپ نے کچھ نہیں کرنا۔۔ ایک کمینی ترین تصویر لگانی ہے، ایک عدد Dunhill Red سلگانی ہے، ایک گہرا کش لینا ہے اور مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر خداوند باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے کہ۔۔
فبأی آلاء ربکما تکذبان