Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ma Gi Allah Walley
  4. Hazrat Ali Ke Dilchasp Faisle

Hazrat Ali Ke Dilchasp Faisle

حضرت علیؑ کے دلچسپ فیصلے

شیر خدا حضرت سیدناعلی المرتضی ؓ کی ذہانت اور انصاف پر مبنی فیصلے پورے عرب میں مشہور تھے اسی لئے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے حضرت علی ؓ سے رجوع کیاکرتے تھے۔ آپؓ اپنے علم و فراست سے جب کوئی فیصلہ سناتے تو لوگ اس فیصلے کو دل سے قبول کرلیتے کیونکہ آپؓ ہمیشہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اس دور میں آپؓ نے علم ریاضی کے حوالے سے ایسے ایسے تاریخی فیصلے کئے کہ بڑے بڑے ریاضی دان ان فیصلوں پر حیرت کااظہار کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ تین آدمیوں میں سترہ اونٹوں کی تقسیم پر جھگڑا ہوگیا وہ انصاف پر مبنی فیصلہ کروانے کے لئے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ"ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں جس میں سے ایک کا حصہ کُل اونٹوں کا آدھا (1/2)ہے جبکہ دوسرے کا حصہ تہائی(1/3) اور تیسرے کا کُل اونٹوں کا نواں حصہ(1/9) بنتا ہے، اگر اونٹوں کو ذبح کرکے تقسیم کیا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے آپؓ کوئی ایسی تدبیر بتا دیں کہ اونٹ ذبح کئے بغیر ہمارے درمیان تقسیم ہوجائیں اور ہمارا آپس کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ "

حضرت علی ؓ نے ان تینوں کی بات سننے کے بعدبیت المال سے ایک اونٹ منگوایا اور ان17 اونٹوں میں شامل کردیا، اب اونٹوں کی کُل تعداد 18 ہوگئی تھی، آپ ؓ نے بتائے گئے حصوں کے مطابق اونٹوں کی تقسیم شروع کردی۔ آپؓ نے پہلے شخص، جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 اونٹوں کے آدھے اونٹ یعنی9 اونٹ دے دیئے، اس کے بعد آپؓ نے دوسرے شخص جس کا حصہ تہائی بنتاتھا اسے 18 اونٹوں کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دئیے اور پھر آخر میں آپؓ نے تیسرے شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں سے نواں بنتا تھا اسے 18 اونٹوں کا نواں حصہ یعنی2 اونٹ دے دیئے۔ اس طرح آپ ؓ اپنی ذہانت اوردانشمندی سے تینوں آدمیوں میں بلترتیب پہلے کو9، دوسرے کو6 اور تیسرے کو2 اونٹ جن کا کُل 17 بنتا ہے، بغیر کاٹے تقسیم کردیئے جبکہ ایک اونٹ جو بیت المال سے منگوایا گیا تھا، اسے واپس بیت المال بھجوادیا گیا۔ (خلفائے راشدین، ص:126ملخصاً)

حضرت علی ؓ کے عدل و انصاف کا ایک اوردلچسپ واقعہ بہت مشہور ہے۔ دوشخص سفر پر نکلے ہوئے تھے، کھانا کھانے کے لئے کسی جگہ پر اکٹھے بیٹھ گئے۔ ایک کے پاس 5 روٹیاں اور دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں۔ اسی دوران وہاں سے ایک تیسرے شخص کاگذر ہوا۔ دونوں نے اس تیسرے شخص کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مل کر روٹیاں کھانے لگے، کھانے کے بعد تیسرا شخص وہاں سے جاتے ہوئے دونوں کو روٹی کی قیمت کے طور پر آٹھ درہم دے گیا۔ اب ان دونوں میں آٹھ درہم کی تقسیم پرجھگڑا شروع ہوگیا۔

جس کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس کا کہنا تھا کہ روٹی کے حساب سے اس کے پانچ درہم اور دوسرے کے تین درہم بنتے ہیں جبکہ دوسراجس کے پاس تین روٹیاں تھیں وہ آٹھ درہم برابر تقسیم کرنے پر بضد تھا۔ آخر کاردونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپؓ نے ساری بات سننے کے بعدتین روٹی رکھنے والے شخص سے فرمایا"تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے اسے قبول کرلو کیونکہ انصاف کے مطابق تمھارے حصہ میں صرف ایک درہم آتا ہے۔ "

یہ سن کر وہ شخص حیران ہوگیا اور عرض کیا"آپؓ مجھے سمجھا دیں کہ کیسے میرا حق صرف ایک درہم بنتا ہے؟"آپؓ نے فرمایاکہ "روٹیوں کی کُل تعداد آٹھ تھی اور کھانے والے تم تین آدمی تھے، اگرایک روٹی کے تین ٹکڑے کئے جائیں تو 8 روٹیوں کے کُل 24ٹکڑے بنتے ہیں جوتینوں میں برابر تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصہ میں آٹھ روٹی کے ٹکڑے آتے ہیں، تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھالئے اور باقی ایک ٹکڑا بچا جبکہ تمہارے ساتھی نے اپنی 5 روٹیوں کے 15 ٹکڑوں میں سے 8 ٹکڑے کھائے تو باقی7 ٹکڑے بچے، اس طرح تیسرے شخص نے تمہاری روٹیوں میں سے ایک ٹکڑا کھایا اور تمہارے ساتھی کی روٹیوں میں سے 7 ٹکڑے کھائے لہذاء انصاف کے مطابق تمھارایک درہم اور تمہارے ساتھی کے7 درہم بنتے ہیں۔ "

اس منصفانہ تقسیم پر دونوں متفق ہوگئے اورپانچ روٹی والے نے سات درہم اور تین روٹی والے نے ایک درہم لے لیا۔ (استیعاب، 3 / 207 ملخصاً)

Check Also

Bhaag Nikalne Ki Khwahish Bhi Poori Nahi Hoti

By Haider Javed Syed