Ye Tere Purisrar Banday
یہ تیرے پر اسرار بندے

اقبال کا شاہین ہاک بھارت جنگ مئی 2025 میں زندہ ہوا، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
اور یہ مردِ مجاہد اس فضائی آپریشن کو "یہ تیرے پر اسرار بندے" کا نام دیتے ہیں اور اقبال کے یہ اشعار حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں۔
یہ غازی، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے زوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دنیا 2025 کی پاک بھارت جنگ کے کارنامے سنا چاہتی ہے۔ آپریشن "یہ تیرے پر اسرار بندے" کو لیڈ کر رہے تھے خود ائیر مارشل ظہیر الدین جو "حیدریم" کو لیڈ کرتے ہوئے سر گودہ ائیربیس سے اڑے (وہی ائیر بیس جہاں پر دشمن نے سپر سونیک پراموس مارا تھا (جس کو ہم نے آس پاس ہی گرا دیا تھا) اور بھاولپور سیکٹر 33 کے علاقے سے گزرتے ہوئے دشمن کے علاقے راجستان میں داخل ہوئے اور 321 کلو میٹر تک صوبہ راجستان میں پرواز کی، پھر وہاں سے واپس قصور سے پاکستان میں داخل ہوئے اور انھوں نے اس دفعہ (الحجویری) ٹیم کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور وہ لاہور شہر کے اوپر سے اُڑتے ہوئے گھوم کر بھارت میں داخل ہوئے اور بھٹنڈا ائیر بیس پر میزائیل مارنے والی ٹیم کو بیک آپ فراہم کیا اور ایک آدھ بم خود بھی مار دیا۔
پھر وہاں سے زرا گھوم کر امرتسر کی طرف آئے اور پھر پا کستان کی طرف ٹرن لیا، یہاں سے پھر پٹھان کورٹ پر حملہ کرنے والی ٹیم کو لیڈ کیا اور پٹھان کورٹ سے ہوتے ہوئے جموں گئے اور اس دوران 295 کلو میٹر بھارت کی حدود میں فلائی کیا اور پھر پٹھان کورٹ سے ہوتے ہوئے جموں گئے، اس دوران ان کے رافیل، سخوئی، مِگ معراج میں سے کوئی بھی مزاحمت کے لئے سامنے نہ آیا، کوئی مزاحمت کرنے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہا تھا اور یہ مشن "تیرے پر اسرار بندے" کے غازی آزاد کشمیر کی LOC سے پاکستان میں داخل ہوئے اور نور بیس سے ہوتے ہوئے واپس سر گودھا میں لینڈ کر گئے۔
ان شاہینوں نے 897 کلو میٹر دشمن کی فضائوں میں طے کئے، دشمن کی حدود کے اندر تقریباََ، چار چکر لگائے، آسمان کے بے تاج بادشاہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا اور معجزہ کر دیکھایا، یہ سب تفصیلات جان کر مجھے پھر اقبال کی یہ دعا پوری ہوتی ہوئی نظر آئی۔
دل مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ، لا نزر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
اقبال کا اپنے شاہین کے متعلق زکر ایک جزبہ، ولولہ اور عشق دیتا ہے اور جب یہ چیز ایک عام بندے کے ہاتھ میں آتا ہے تو ہم اس کو آسمان کی بلندیوں سے اُٹھا کر صرف اس کے ہاتھ میں ایک تسبیح پکڑا دیتے ہیں۔ حامد میر اپنے ایک پروگرام میں بتا رہے تھے کہ ائیر مارشل ظہیر الدین بابر ایک مذہبی شخصیت ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہر وقت تسبیخ رہتی ہے، اس سے مجھے بہت سے سیاسی لیڈروں کی تسبیح یاد آ گئی۔
تسبیح کا لفظ "سبح" سے نکلا ہے، جس کا مطلب "اپنے مقصد کے لئے انتہائی جدوجہد کرنا ہے"۔ تیراک جب تیراکی میں پوری جدوجہد کرتا ہے اور اپنے ہاتھ اور پاوں مارتا ہے اس کو بھی سبح کہتے ہیں، جب ائیر مارشل ظہیر الدین اپنی پوری ٹیم "حیدریم" اور الجیویری کے ہمراہ نمازِ فجر کے بعد نصرتِ خداوندی کے ساتھ جب اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر بنا رہے تھے اور دنیا ان کے کارنامے دیکھ کر انگشت بداناں تھی تو اس وقت وہ جو تسبیح پڑھ رہے تھے تو اس تسبیح اور وہ تسبیح جو خانقاہوں اور ہجروں میں پڑھی جاتی ہے یہی فرق ہے دونوں تسبیحوں میں۔
اقبال نے اسی بات کو بڑے خوبصورت انداز میں ہمیں سمجھایا تھا۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی ازاں اور مجاہد کی ازاں اور

