Ya Rab, Haqeeqat Dikha De
یا رب،حقیقت دیکھا دے
کیا ہم بے وقوف ہیں؟ اس عنوان کا آغاز طلعت حسین نے اپنے وی لوگ سے کیا، جو کہ مجھے بہت اچھا لگا۔ طلعت حسین بتاتے ہیں کہ 2022 کو جن جن لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوا تھا کہ کیا ہم غلام ہیں؟ انھیں 2023 میں یہ لکھنا چاہیے کہ کیا ہم بے وقوف ہیں؟ اور نیچے لکھا ہونا چاہیے "جی ہاں" بہت شگفتہ لہجہ میں وہ بہت کچھ کہہ گئے اور ایک اور لفظ جو انھوں نے استعمال کیا وہ تھا "محبت کی بے وقوفی" جو بذاتِ خود اپنے اندر گہرے معنی رکھتا ہے۔
خان صاحب کا فین کلب یا ان سے محبت کرنے والوں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا اور کچھ بھی نظر نہیں آ رہا؟ وہ آڈیوز جن کا اعتراف خان صاحب خود بھی طریقے طریقے سے کرتے رہتے ہیں؟ 2022 کو خان صاحب خود حکومت سے نکالے گئے، جو وعدہ کیا وہ پورا نہ کر سکے، خان صاحب کے لئے صادق اور امین کا سرٹیفیکیٹ دینے والے جسٹس ثاقب نثار پوری طرح کھل کر سامنے آ گئے، جب انھوں نے ڈیم فنڈ کے چکر میں ہمارے اربوں روپے ہضم کر لئے، اور عمران خان کی فیملی کی اربوں کی کرپشن ہیرے، جواہرات اور گھڑیاں، بالکل کھل کر سامنے آ گئیں، اس پر کہتے ہیں کہ میرے تخفے میری مرضی۔
مارچ 2022 میں عمران خان ہمیں بتا رہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے مخالفین تتر بتر ہو جائیں گے، 27 تاریخ کو آپ اتنے لوگ دیکھیں گے کہ آپ نے کبھی اتنے لوگ نہیں دیکھیں ہو نگے۔ اس کے بعد عمران خان نکالے گئے اور اپریل میں انھوں نے ایک تحریک کا آغاز کر دیا اور بتایا کہ یہ تحریک کیسے زور پکڑے گی۔ اس کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو تختہ مشک بنانا شروع کر دیا، کبھی غدار، کبھی میر جعفر، میر صادق کہنا شروع کر دیا۔
مئی میں انہوں نے بتایا کہ میں آ رہا ہوں، اور ہم نے اسلام آباد کو اُلٹ پلٹ کر دینا ہے۔ آپ تیار رہیں کیونکہ اسمبلیاں تخلیل ہونے والی ہیں، 25 مئی کو میں آپ کو اسلام آباد میں ملوں گا پھر بتاتا چلوں کہ یہ سیاست نہیں جہاد ہے۔ ہمیں جتنی دیر بھی اسلام آباد رہنا پڑا ہم رہیں گے۔ پھر اسلام آباد پہنچے اور اسلام آباد کے کونے پر کھڑے ہو کر کچھ اور وعدہ کر لیا، چھ دن کا وقت دے کر چلے گئے۔ 20 لاکھ لوگوں نے اسلام آباد اکٹھا ہونا تھا، پھر جون میں ایک اور تاریخ دینے کا کہا، پھر اگست آ گیا اور کہا کہ میں پھر کال دینے والا ہوں، اور یہ آخری کال ہوگی۔
اس کے بعد اکتوبر آ گیا اور کہا کہ یہ مارچ، اکتوبر سے آگے نہیں جائے گا۔ پھر اکتوبر میں لانگ مارچ کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ سیاست سے بہت اوپر کی جنگ ہے۔ پھر نومبر آ گیا اور کہا کہ ہم اسمبلیوں سے نکلنے لگے ہیں، پھر دسمبر آ گیا اور فیصلہ یہ کیا کہ ہم پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلی توڑنے لگے ہیں، نیا سال آ چکا ہے نہ اسمبلیاں ٹوٹیں نہ انقلاب آیا۔ طلعت حسین کی زبان میں"محنت کی خماقت" سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فین کلب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
کبھی کہتے ہیں کہ اللہ نے نیوٹرل ہونے کی اجازت نہیں دی پھر اچانک سے نیوٹرل ہونے کی اجازت مل گئی اور اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہونے کا کہا گیا کیونکہ اس سے اسٹیبلشمنٹ کا وقار اوپر جائے گا۔ پھر امریکی غلامی کا ڈرامہ رچایا اور خود امریکہ سے روابط بڑھانے شروع کر دئے، یہ سب کچھ 2022 میں ہوتا رہا اور خان صاحب کا فین کلب کچھ بھی سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ حقائق چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں لیکن جنہوں نے نہیں ماننا وہ نہیں مانیں گے۔
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور۔
میں بارہا یہ بات دہرا چکی ہوں کہ جو شخص بھی کسی منصب پر فائز ہو جاتا ہے اُس کی زبان سے نکالا گیا ایک ایک لفظ اہمیت رکھتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ خان صاحب کی زبان سے کیا کیا پھول نہیں جھڑتے۔ ایک دفعہ حمص کے حاکم عمیر بن سعد کے منہ سے ایک زمی کے متعلق یہ الفاظ نکل گئے۔
اخزکّ اللہ یعنی خدا تجھے رسوا کرے۔
اس پر حضرت عمیر بن سعد رظہ کو اس قدر تاسف ہوا کہ سیدھے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہو کر اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اور کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ میں اس منصب کا اہل نہیں۔ بہتیرا سمجھایا لیکن وہ استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ عمیر بن سعد بہت قابل اور ایماندار حاکم تھے لیکن ان کا یقین تھا کہ اخترامِ آدمیت میں کوتاہی کسی حاکم کو زیب نہیں دیتی، اس لئے انہوں نے اپنا اسعفیٰ واپس نہ لیا۔
خان صاحب خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور پلے بوائے بھی رہے ہیں، تو پھر خان صاحب کو توبہ کر لینی چاہیے کیونکہ اعتراف کے بعد توبہ کا لمحہ ہوتا ہے۔ توبہ کیا ہوتی ہے؟ اگر آپ کسی شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں اور آپ نے راستہ کا انتخاب غلط کیا ہے تو پھر آپ کو دوبارہ سے واپس آ کر ٹھیک مقام پر پہنچنے کے لئے دوبارہ سے سفر کرنا ہوگا۔ پچھلا کیا گیا سفر سب کچھ غارت چلا جائے گا۔
خان صاحب کے پاس مہلت کا وقفہ ہے اگر وہ توبہ کر کے ٹھیک راستہ کا انتخاب کر لیں تو شاید بہت سے اور لوگ گمراہ ہونے سے بچ جائیں۔ خان صاحب کو رب کی بارگاہ میں نہ صرف اپنا بلکہ اُن لوگوں کا بھی حساب دینا ہوگا، جن کو انہوں نے اپنے پیچھے لگایا تھا۔ خان صاحب کو جب حکومت ملی تھی اس وقت G p ریٹ، 5 سے 8 تقریبا تھا اور جب حکومت چھوڑی اُس وقت کتنا رہ گیا تھا اس سوال کا جواب میں اُن کے تمام فین کلب پر چھوڑتی ہوں۔
آخر میں میں حضور صہ کی اس دعا کا ذکر کرتی چلوں جو انہوں نے اپنے رب سے کی تھی کہ مجھے لوگوں کو اُن کی اصل دیکھا دے۔ جس طرح وہ حقیقت میں ہیں مجھ پر ظاہر کر دے، میں یہ دعا اپنی پوری پاکستانی قوم کے لئے کرتی ہوں کہ خدا ہم سب کو سب "بڑوں" کی حقیقت دیکھا دے۔