1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Waqt Zaroor Ayega

Waqt Zaroor Ayega

وقت ضرور آئے گا

اب وہ دور نہیں رہا جب ہمارے ارباب اختیار اپنی من پسند زندگی گزارا کرتے تھے اور عوام تک زیادہ خبریں نہیں پہنچ پاتی تھیں۔میرے ذہن کے کسی گوشے میں ہے کہ میرے استاد نے مجھے بتایا تھا کہ بھٹو فرا نس کا پانی پیا کرتا تھا۔بچپن کا زمانہ تھا بات ذہن میں رہ گئی۔مجھے اس وقت بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے تکلیف ہوا کرتی تھی کیونکہ مجھے بچپن میں بتایا گیا تھا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگی ہمارے لئے عملی نمونہ ہے اور عملی نمونہ کا مطلب یہی تھا کہ ہمیں بھی ایسی ہی زندگی گزارنی ہے۔لیکن کبھی بھی یہ نمونہ مجھے اپنے ارباب احتیار کی زندگی میں نظر نہ آیا۔

ابھی خبروں میں پڑھ رہی کہ پنجاب کی قا ئمہ کمیٹی برائے خزانہ نے صوبائی وزرا کے لئے نئی گاڑیوں کی خریداری کے لئے سپلیمنٹری گرانٹ جاری کرنے کی منظوری دے دی۔پنجاب کابینہ کے وزرا کے لئے 1800 سی سی کی 46 نئی گاڑیاں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے ایک بلٹ پروف گاڑی کی خر یداری کے لئے ایک قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے 18کروڑ 64 لاکھ کی منظوری دی۔ذرائع کے مطابق سپلیمنٹری گرانٹ کے اجراء پر پابندی ہے اس لئے منظوری قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سے لی گئی ہے۔

وزیر اعظم کا پسند یدہ دور خلافت راشدہ میں حج کے اجتماع میں شرکت (امیرالمومنین اور دیگر عمال حکومت) کی سرکاری ڈیوٹی تھی۔ظاہر ہے کہ اس کے اخراجات حکومت کو برداشت کرنے ہوتے تھے۔واضح رہے کہ اس وقت مملکت کے اہم فیصلے مساجد میں ہی ہوا کرتے تھے یہی اسمبلی اور پارلیمنٹ ہوا کرتی تھی۔حج کے سالانہ اجتماع میں بھی امت کے اہم فیصلوں پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔

صدر مملکت کس شان سے یہ سفر کرتے تھے اس کااندازہ خضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ کی اس روایت سے لگ سکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ " میں ایک دفعہ حج کے سفر میں حضرت عمر کے ساتھ رہا 'آپ کے لئے نہ کہیں خیمہ لگایا گیا نہ سائبان 'نہ کوئی ایسی عمارت تھی جس میں آپ آرام کر سکتے۔جہاں قیام کرنا ہوتا 'ایک چادر کسی درخت پر ڈال دیتے اور اس کے سائے میں ہم سب آرام کر لیتے۔خضرت یسار بن نمیر کی روایت ہے کہ ایک دفعہ خضرت عمر نے پو چھا کہ اس مرتبہ حج پر کل کیا خرچ آیا؟ میں نے کہا 'پندرہ دینار 'دوسری روایت میں ہے 'دو سو اسی درہم ' اس پر آپ نے فرمایا "ہم نے بیت المال کا بہت سا روپیہ اڑا دیا "مکان امیرالمومنین کا وہی تھا جس میں آپ 'زمانہ خلافت ' سے پہلے رہا کرتے تھے جو ایوان حکومت وہی مسجد تھی تو ایوان صدر جداگانہ کیوں ہوتا؟

حضرت عمرو بن عاص نے آپ کو اطلاع دی کہ انہوں نے صد ر مملکت کے لئے مصر میں ایک مکان بنوایا ہے۔اس پر حضرت عمر نے انہیں جواب دیا کہ "بھائی ذر ا سوچو! حجاز میں رہنے والے کا مکان مصر میں کیسے ہو سکتا ہے۔اس مکان کو رفاء عامہ کے لئے کھلا رہنے دو۔"ضمنا" 'مکانات کے متعلق عام لوگوں کے لئے بھی آپ کی ہدایت یہی تھی کہ وہ نہا یت سادہ سے ہونے چا ہیں۔جب کوفہ کی چھاؤ نی تعمیر ہوئی تو وہاں پہلے با نس کے مکانات بنا ئے گئے،ایک دفعہ ان مکانوں میں آگ لگ گئی تو وہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے اس پر آپ نے اجازت دی کہ ان کی جگہ مکانات پختہ بنا لئے جائیں۔لیکن ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ نہ کوئی شخص تین کمروں سے بڑا مکان بنائے نہ ہی اونچا یہ تھی امیر المومنین کی زندگی!

اگر قائد اعظم جیسی شخصیت رب ہم مسلمانوں کو اس دور میں دے سکتا ہے جنھوں نے جرابوں کہ جو ڑے جو دو روپے کے تھے جن کی قیمت بھی ان کے اکاؤنٹ سے ادا کی جانی تھی یہ کہہ کر واپس کر دئے کہ غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہئے حالانکہ وہ بیمار تھے اور انہیں اس کی ضرورت بھی تھی۔ میں اب بھی نا امید نہیں !وہ وقت ضرور آئے گا جب اس ملک میں خلافت راشدہ جیسی حکومت قائم ہو گئی!انشاءاللہ

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari