Umeed Ke Sath
اُمید کے ساتھ

"مایوس نو جوان" کے عنوان سے کالم لکھنے کے بعد میرے پاس بہت سے نوجوانوں کے سوالات کا ڈھیر لگ گیا اور میں سمجھتی ہوں کہ جو ذہن سوال کرتا ہے وہ سوچتا ہے اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دی وہ تربیت نہیں کر پائے جو ہمیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم تو یہ بھی بتا نہیں پائے کہ ہم نے یہ ملک کیوں لیا تھا؟ نوجوان سوال کرتے ہیں کہ ہم اتنی محنت کرتے ہیں اور جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ ہماری بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر پاتا۔ اگر ہم ٹھیک راستہ بھی اختیار کریں تو اس کے باوجود ہم اپنی خواہشات پوری تو کیا کریں گئے، ہم تو اپنی بنیادی ضروریات تک سے محروم رہتے ہیں۔ اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنا فی صد طبقہ یہ سب کچھ حاصل کر پاتا ہے۔
غلط نظام جی ہاں اس کی وجہ غلط نظام ہے اور غلط نظام ہمیں ٹھیک راستے کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ جب ایک خاص طبقہ زیادہ سے زیادہ سمیٹتا چلا جاتا ہے تو باقی طبقہ اس سے محروم رہ جاتا ہے۔
غیر قرآنی نظام میں Animal instinct (حیوانی جبلت) کار فرما ہوتی ہے۔ جس میں ہر فرد زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا حل ایک نظام ہے جو اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ تم بھوکے نہیں رہو گئے۔ اس کے بعد انسان وہ نظام پیدا کرتا ہے جس میں ہولڈنگ possession (ملکیت) کا جزبہ ختم ہو جاتا ہے، اب اس کا جزبہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ محنت کرے اور زیادہ سے زیادہ دیتا چلا جائے۔ جب انسانوں کے اندر یہ تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تو پھر ہر انسان کی ضروریات اس نظام کے تخت پوری ہو جاتی ہیں۔
اس کے بعد تواتر سے یہ سوال کمیونیزم کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ بھی یہی کہتے تھے لیکن کمیونیزم کا سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ انھوں نے اللہ کو درمیان سے نکال دیا۔ کارل مارکس ایمان دار شخص تھا، اس نے اس چیز کا اعتراف کر لیا تھا کہ انسان کی مشکلات کا حل اس نظام میں ہی ہے لیکن میں جزبہ محرکہ نہیں پاتا جو انسان کو اس بات پر آمادہ کر دے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے کم اپنے پاس رکھے اور زیادہ اپنی ضروریات کے لئے دے دے۔
یہ نظام کون بنائے گا؟ یہ نظام وہ دل بنائے گا جس کی تربیت اللہ کی کتاب کے مطابق ہوئی ہوگئی اور دنیا نے وہ نظام دیکھا ہے۔
اس کی وضاحت کے لئے اس وقت حضرت عثمان کا ایک واقعہ بیان کرتی ہوں کہ ایک دفعہ کھانے کے بعد انھوں نے اپنی بیگم سے پوچھا کہ کیا کھانے میں کوئی میٹھی چیز ہے تو بیگم نے کہا کہ بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں میٹھا نہیں ہوتا، بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک ہفتے بعد کھانے کے بعد بیگم نے میٹھا بھی رکھ دیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کہا سے آیا تو انھوں نے بتایا کہ روزانہ آٹا سے میں مٹھی بھر آٹا جمع کرتی رہی اور اس کے بدلے میں میں نے کھجور کا شیرہ خرید کر میٹھا بنا لیا۔ کھانے کے بعد بیگم کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں جا کر خزانچی سے کہا کہ ہمارے راشن میں اتنا آٹا کم کر دیں کیوں کہ ہفتہ بھر کے تجربہ نے بتایا ہے کہ کم آٹے میں بھی ہمارا گزارا ہو سکتا ہے۔
یہ نظام اس طرح کا دل رکھنے والا قائم کرے گا۔ یہ نظام قائم ہونا ہے، اگر انسانی ہاتھ اس میں شامل ہو جائیں تو جلد ہو جائے گا اگر نہ ہوں تو دیر لگ جائے گئی، ہمیں بحر حال اپنے حصے کا کام کرتے چلے جانا ہے۔

