Sarbarah e Mumlikat Ki Haisiyat Khazanchi Ki Hoti Hai
سر براہِ مملکت کی حیثیت خزانچی کی ہوتی ہے
حالیہ عمر فاروق ظہور کا انٹرویو سامنے آیا ہے، اور اس نے وہ تمام تحائف دیکھا دیئے جو خان صاحب نے اس کو بہت منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی ٹیم کے ذریعے فروخت کئے تھے۔ ان میں وہ گھڑی بھی شامل تھی جس پر خانہ کعبہ کی تصویر لگی ہوئی تھی، جو خان صاحب کو ولی عہد کی جانب سے تحفہ میں دی گئی تھی۔ جس کو اب تمام عوام دیکھ چکی ہے۔ مسلمان خانہ کعبہ کی تصویر کے حوالے سے بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب میں عمرہ کے لئے گئی تھی تو اپنے بچوں کے لئے چھوٹے چھوٹے گلاس لائی تھی جن پر خانہ کعبہ کی تصویر بنی ہوئی تھی، سات آٹھ برس پہلے کی بات تھی، اس وقت میرے بچے بھی چھوٹے چھوٹے تھے لیکن آج تک بچوں نے وہ گلاس سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ خلوص سے دئیے گئے تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اور وہ گھڑی تو بہت سے حوالوں سے منفرد تھی۔
خانہ کعبہ کی تصویر کے حوالے سے، برادر ملک کی طرف سے دئیے جانے کے حوالے سے، جس کو فروخت کرنے کا اعتراف تو خان صاحب خود بھی کر چکے ہیں لیکن ان تحائف کے حوالے سے جو ہوش ربا حقائق سامنے آئے ہیں کہ عقل حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتی ہے، ان تحائف کی مالیت کا تخمینہ دو ملین ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا ہے جو اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ شہزاد اکبر نے عمر فاروق سے رابطہ کیا، انھوں نے فرح گوگی سے ڈیل کرنے کو کہا، اس نے تحائف کی مالیت 6 ملین ڈالر بتائی اور سودا دو ملین ڈالر میں طے ہوا، تقریباََ 300 کروڑ بنتی ہے۔
اب اس بات کا چرچا کیا جا رہا ہے کہ عمر فاروق دو نمبر بندہ ہے بالکل ٹھیک کہا جا رہا ہوگا، کیونکہ دو نمبر کام کے لئے دو نمبر بندوں سے ہی رابطہ کیا جا سکتا ہے، یہ شخص انٹرپول کو مطلوب تھا، خان صاحب نے 2021 میں لائبیریا میں پاکستانی سفیر مقرر کیا، اور اس کا نام ای سی ایل سے بھی نکلوایا گیا۔ خان صاحب کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟ کہ یہ سب اس دو نمبر آدمی کے ساتھ کیوں کیا گیا؟
خان صاحب نے منافع کی خاطر جذبات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میرا تحفہ، میری مرضی۔
میرے شوہر نے مجھے ایک دفعہ واقعہ بتایا کہ وہ جاپان میں تھے، وہاں ان کے ایک دوست نے اپنی والدہ کے لئے بہت اچھے برانڈ کی گھڑی خریدی، اس کی والدہ نے وہ کھڑی فروخت کر دی، اُس دوست کو بہت دکھ ہوا، میرے شوہر اکثر کہا کرتے ہیں کہ اتنا مہنگا تحفہ اس کو دینا چاہیے، جس کو اس کی قدر ہو، اتفاق سے واقعہ گھڑی ہی کا تھا۔
خان صاحب نے تحائف فروخت کرنے کے بعد قانون بنایا کہ تحائف کی قیمت کا %50 ادا کر کے تحائف خریدے جا سکتے ہیں اور خود 300 کروڑ کے تحفہ کا ایک کروڑ ادا کیا گیا جو کہ ایک فیصد بنتا ہے۔ قانون بنانے کے لئے کوئی ضابطہ یا لائے عمل نہیں تھا تو کم از کم تاریخ کا مطالعہ ہی کر لیتے۔ خان صاحب کو تو ویسے ہی دورِ فاروقی اور ہماری اسلامی تاریخ ازبر ہے۔ قانون بناتے وقت شاید بھول گئے ہوں، آئندہ آنے والوں کے لئے بھی اور مذہبی ٹچ دینے والے خان صاحب کو بھی چند ایک واقعات یاد کرواتی چلوں۔
دورِ فاروقی کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ شاہِ روم کا قاصد آیا تو ملکہ کی طرف سے "فرماں روائے مملکت اسلامیہ کی بیگم" کے لئے ہدیہ لایا۔ آپ کی بیوی نے ایک دینار قرض لیا، عطر خریدا اور شیشیوں میں بند کرکے ملکہ روم کو بھیج دیا۔ اس نے تحفہ وصول ہونے پر انہی شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے ان سارے جوہرات کو فروخت کیا، ایک دینار جو بیوی نے قرض لیا تھا، اس کو واپس کیا، اور باقی رقم بیت المال میں داخل کر دی اور بیوی کو محتاط رہنے کی تلقین کی۔
ایک دفعہ بیت المال میں خوشبو آئی تو آپ نے اپنی بیوی کو دے دی کہ وہ اسے فروخت کر کے رقم بیت المال میں جمع کر دے۔ بیوی نے خوشبو فروخت کر دی، لیکن جو انگلیوں پر لگی رہ گئی اسے اپنے دوپٹے پر مل لیا۔ خوشبو نے بہرحال غمازی کرنی تھی، اس نے کر دی۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ تمھیں خوشبو بیچنے کے لئے دی گئی تھی، نہ کہ اس لئے کہ تو مسلمانوں کے مال سے نفع اندوز ہو جائے، یہ کہہ کر اپنی بیوی کے دوپٹے کو دھو ڈالا، اس پر بھی خوشبو نہ گئی تو اسے مٹی سے ملا، پھر سونگھا اور جب تک خوشبو اتر نہیں گئی، ایسا ہی کرتے رہے۔
تحائف اس وقت بھی ملا کرتے تھے اور جو مسلمانوں کے مال کا خزانچی ہو وہ ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اور ایک بات واضح کرنا بےحد ضروری ہے کہ تحائف سے متعلق فیصلہ باہمی مشاورت سے ہوتا تھا کہ تحائف اسی طرح بیت المال میں جمع کروانے ہیں یا فروخت کر کے اس کا پیسہ بیت المال میں جمع کروانا ہے۔ لیکن یہ بات بچہ بچہ جانتا تھا کہ یہ رقم کسی طور پر ذاتی استعمال کے لئے نہیں تھی۔
کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے کم از کم اپنی تاریخ کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں جو واقعی ہمارے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: "سربراہِ مملکت کی حیثیت خزانچی کی ہوتی ہے۔ اس کے پاس ڈھیروں مال جمع رہتا ہے۔ لیکن سب اس لئے کہ جہاں تقسیم کرنے کا اسے حکم دیا جائے، وہاں تقسیم کر دے"۔