Saqoot e Dhaka, Dil Kharash Yaad
سقوطِ ڈھاکہ، دلخراش یاد
ہر سال جب 16 دسمبر آتا ہے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن میرے دادا جی بتاتے ہیں کہ جس دن سقوطِ ڈھاکہ ہوا تھا اس دن ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکا تھا۔ اُس واقعہ کو یاد کر کے وہ آخری وقت تک رو پڑتے تھے۔
ہم نے آدھا پاکستان کھو دیا، کیوں کھو دیا؟ کیسے کھو دیا؟ اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اُس وقت اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج دو قومی نظریہ خلیجِ بنگال میں بہہ گیا۔ یہ الفاظ میں جب بھی تاریخ میں پڑھتی ہوں میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقت نے ثابت کر دیا کہ دو قومی نظریہ باطل پر مبنی تھا آج باطل نظریہ مٹ گیا۔
دشمنوں کو بہت اچھی طرح سے معلوم تھا کہ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ دشمن کے بچے بچے کو پتہ ہے کہ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اگر نہیں معلوم تو ہمارے بچوں کو ہی معلوم نہیں۔ ہم انڈین فلمیں اور ڈرامے اپنے بچوں کو دیکھاتے اور خود بھی دیکھتے ہیں۔ دو قومی نظریہ صرف پاکستان اور انڈیا کے ڈراموں میں جاگتا ہے جو کہ محض ایک کھیل ہے اور جب ہمارے بچے انڈیا کے کلچر کی پیروی کرتے ہیں اس وقت یہ نظریہ سویا ہوتا ہے۔ دشمن تو ہمیں بار بار یاد کراتا ہے 16 دسمبر کو APS کا سانحہ ہوا تو انہوں نے ہمیں دوبارہ سقوطِ ڈھاکہ کا صدمہ زندہ کروا دیا۔
سلسلہ وحی کا آغاز حضرت نوحؑ سے ہوتا ہے۔ اس وقت حضرت نوحؑ ایک طرف اور ان کی بیوی اور بیٹا دوسری طرف تھے۔ حضرت لوطؑ کی بیوی کے متعلق کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنوں میں سے نہیں، غیروں میں سے ہے۔ حبش کا بلالؓ، فارس کا سلمانؓ اور روم کا صہیبؓ اپنی قوم کے افراد تھے اور مکہ کا ابوجہل جو حضرت عمرؓ کا حقیقی چچا تھا، دوسری قوم کے افراد تھے اور دنیا کی آنکھ نے پہلی دفعہ یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ ایک طرف تھے اور ان کا بیٹا دوسری طرف۔ حضرت خزیفہؓ اِدھر تھے تو اس کا باپ عتبہ دوسری طرف، حضرت علیؑ اِدھر تھے تو ان کا بھائی عقیل اُدھر، اِدھر محمدؐ اور ادھر ان کے حقیقی چچا عباس اور داماد ابوالعاص۔
یہ تھی وہ تقسیمِ انسانیت جو وطن، رنگ، زبان، نسل، رشتہ داری کی تمام حدود سے بلند ہو کر وجود میں آئی تھی۔ اسی دو قومی نظریہ کا ذکر مردِ ناداں اقبال نے کیا تھا کہ اسلام کے رشتہ کی وابستگی کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں اور اس کو ہمارے بچوں سے زیادہ ہمارے دشمن سمجھتے ہیں۔
قائدِاعظم نے مسلمانوں کے علحیدہ تشخص پر بار بار زور دیا، تو مسٹر گاندھی نے انہیں مورخہ 15 ستمبر 1944 کو ایک خط میں لکھا:
"میں تاریخ میں اس کی مثال نہیں پاتا کہ کچھ لوگ جنہوں نے اپنے آباو اجداد کا مذہب چھوڑ ایک نیا مذہب قبول کر لیا ہو۔ وہ اور ان کی اولاد یہ دعویٰ کریں کہ وہ اپنے آباو اجداد سے الگ قوم بن گئے ہیں۔ اگر ہندوستان اسلام کی آمد سے پہلے، ایک قوم تھی تو اسلام کے بعد بھی اسے ایک قوم ہی رہنا چاہیے خواہ اس کے سپوتوں میں سے ایک کثیر تعداد نے اسلام قبول کر لیا ہو"۔
لیکن قائدِاعظم نے اس دعویٰ کو اس شدومد سے دہرایا کہ اس کے مخالفین تک کا اعتراف کرنا پڑا کہ حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں، چنانچہ آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے ایک ممتاز رکن مسٹر ابن سی دت نے اپنے ابنائے قوم کے نام ایک کھلی چھٹی میں جو اخبار مدینہ یکم جنوری 1940 کی اشاعت میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ ان حالات میں میرا خیال ہے کہ ہندو، مسلم قضیہ کا حل یہی ہوگا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان کو دو قومیں سمجھ لیا جائے اور پھر دو قوموں کی حیثیت سے ان کے متعلق ایک متحدہ قومیت کا خیال ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل سے نکال دیا جائے۔
مسٹر جناح نے حال ہی میں گاندھی کو جواب دیتے ہوئے متحدہ قومیت کے تصور کو سراب کے لفظ سے تعبیر کر کے اس خیال کا اظہار کیا ہے۔ یہ میرے خیال میں، اب نہیں تو کل حقیقت ہو کر رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں پاکستان کے خیال سے ڈرنا نہیں چاہیے، البتہ اس میں ترمیم و اصلاح کر کے، اسے اپنے حسبِ حال بنانے کی کوشش کرنی چاہیے"۔
ہندو اور انگریزوں کے سامنے ایک چٹان کھڑی تھی، اور اسی چٹان کی طاقت کی بدولت دو قومی نظریہ کی بناء پر پاکستان معرضِ وجود میں آ تو گیا، لیکن پاکستان کا وجود صرف اِسی دو قومی نظریہ کی وجہ کھٹکتا رہا اور کھٹکتا رہے گا۔ اسی لئے وہ اس پاک وطن کا وجود برداشت نہیں کر سکتے، اور اپنی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ دو قومی نظریہ اپنے بچوں کے ذہنوں میں کیسے داخل کرنا ہے؟