Salahiaten Rakh Ka Dher Ban Gaye
صلاحیتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں
عمران خان کو بالآخر توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دے دیا گیا۔ ایک لیڈر مثال ہوتا ہے ان سب لوگوں کے لئے جو اس کو آئیڈیلائیز کرتے ہیں۔ جس طرح خان صاحب کے چاہنے والے نوجوان وہ ہر پہلو میں خان صاحب کو follow کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، میرا اپنا چھوٹا بھائی بالکل وہی زبان استعمال کرتا ہے جو میں عمران خان کی زبان سے سنتی چلی آ رہی ہوں۔ یہ چیز لمحہ فکریہ تھی پوری پاکستانی آئندہ نسل کے لئے۔
کبھی خواتین کے لئے غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ غریدہ فاروقی جو کسی زبان میں عمران خان کی شان میں قصیدہ پڑھتی نہیں تھکتی تھی کے بارے میں بھی عجیب زبان استعمال کرنے سے نہیں رکے، پھر کہتے ہیں کہ اگر خواتین غلط لباس پہنے تو آدمی کوئی ربورٹ تو نہیں جو اپنے آپ کو روک سکے، قرآن نے مردوں کے لئے حضرت یوسفؑ کو بطور مثال پیش کیا ہے جنھوں نے قید ہونا پسند کیا لیکن اپنی اخلاقی قدروں کو گرنے نہیں دیا۔
اور قائدِاعظمؒ واقعی قائدِاعظمؒ ہیں اور میں ان کو مردِ مومن بھی کہتی ہوں، انگریز خوبصورت خواتین ان سے بےحد متاثر تھیں لیکن اپنے کیا اور بیگانے کیا سب ان کے کردار کی گواہی دیتے ہیں اور تو اور نیشنلسٹ علماء ویسے تو قائدِاعظمؒ کو کافر قرار دیتے رہے لیکن ان کے کردار کے بارے میں کبھی کچھ نہ کہہ سکے، یہ ہوتے ہیں لیڈر، جو قوم بناتے ہیں۔ کاش قدرت ان کو کچھ اور مہلت دے دیتی۔
عمران خان اس قسم کی زبان استعمال کرنے کے باوجود کہتے ہیں کہ میں جہاد کر رہا ہوں، میری سیاست نہیں جہاد ہے اس لئے سب کو میرا ساتھ دینا بےحد ضروری ہے۔ جہاد تو وہ تھا جو سر سید احمد خان نے کیا، قائدِاعظمؒ نے کیا، جس کی بدولت خدا کے نام پر ہمیں پلیٹ میں رکھ کر یہ مملکت مل گئی، ایک دفعہ کسی تقریب میں قائدِاعظمؒ نے ایک عالم سے پوچھا کہ کیا ہماری اس جدوجہد کا نتیجہ میری زندگی میں برآمد ہو جائے گا؟
تو اس عالم نے بتایا کہ حضورؐ نے یہی سوال اللہ سے کیا تھا کہ ہماری اس جدوجہد کا نتیجہ میری اس زندگی میں برآمد ہو جائے گا تو ربّ نے جواب دیا تھا کہ تمھارا کام جدوجہد کرتے چلے جانا ہے اس کا نتیجہ کب نکلتا ہے تمھارا کام نہیں۔ پھر پاکستان بن گیا اور کسی تقریب میں وہی عالم قائدِاعظمؒ کے ساتھ تھے تو انھوں نے کہا دیکھیں، ہماری محنت کا نتیجہ برآمد ہو گیا، کوئی مایوسی کی بات نہیں تھی تو آپ جانتے ہیں کہ قائدِاعظمؒ نے کس شگفتگی سے کہا ہاں مایوسی کی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن خدا نے تو ٹکا سا جواب دیا تھا۔
اس واقعہ میں کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے کہ حق کی راہ پر چلنے والے، کسی صلے کی تمنا کے بغیر جدوجہد کرتے چلے جاتے ہیں نتائج کبھی کبھار جلدی برآمد ہو جاتے بعض اوقات جدوجہد کرنے والے کی زندگی کے بعد برآمد ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے جہاد میں لفظوں کی غلاظت بھی شامل ہے جو ذہنیت کی غلاظت کو ظاہر کرتی ہے۔ نگاہوں کی پاکیزگی نہ صرف چہرہ سے ظاہر ہوتی ہے بلکہ لفظوں سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔
عمران خان کی سیاست کا بالآخر خاتمہ ہو گیا۔ جنھوں نے خان صاحب کو آسمان کی بلندیوں پر چڑھایا تھا، خان صاحب کے تکبر نے اس کو زمین کی پستیوں میں گرا دیا یا یوں کہیں کے پستیوں میں گرنے کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔ خان صاحب کے ساتھ کسی نے کچھ نہیں کیا جو کچھ کیا ہے انھوں نے خود اپنے ساتھ کیا ہے۔ چور چور کے نعرے لگانے والا، اتنا کم ظرف نکلا کے چھوٹے چوروں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ اس نے نہ زمینیں چھوڑیں نہ چھوٹی چھوٹی چیزیں۔
میں تمام نوجوانوں کو صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ بلند سیرت انسان کی زندگی کا ہر پہلو بلند ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا کوئی ایک گوشہ بھی باقی زندگی سے الگ نہیں ہوتا۔ بلند سیرت انسان کے کریکٹر کا اعتراف اپنے اور غیر سب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ عمران خان کو دیا تھا، صرف اسی لئے کہ شاید اقبال اور قائدِاعظمؒ کا پاکستان بن جائے گا۔ لیکن مجھے اپنی غلطی کا احساس کافی پہلے ہو گیا تھا۔
دنیا میں اکثر ایسے انسان ہوتے ہیں جن کی انسانی صلاحیتیں بیدار نہیں ہوتیں، لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی صلاحیتیں بیدار تو ہوتی ہیں لیکن ان کا رُح متعین نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ تعمیری نتائج پیدا کرنے کی بجائے تخریبی نتائج پیدا کرنے کا مؤجب بنتی ہیں۔ حضورؐ نے ابوجہل اور حضرت عمر دونوں کے لئے ربّ سے دعا مانگی تھی کہ ان دونوں میں سے جو تجھے عزیز ہے اسے مشرف بہ اسلام فرما، پھر یہ دعا حضرت عمر رظہ کے حق میں پوری ہوئی، اور حضورؐ کی تربیت کے زیرِ سایہ یہ صلاحیتیں کندن بھر کر ابھریں۔
خان صاحب میں صلاحیتیں تو بہت تھیں اسی وجہ سے وہ کرکٹ کے میدان میں اوپر تک گئے، لیکن وہ کمزور لمحہ جب عمران خان نے اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ کر ہر غلط اور ٹھیک فیصلے کرنے شروع کیے اور اس پر ظلم یہ کہ ان کو تسلیم کرنے کی بجائے ان پر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ چنانچہ نتیجہ یہی ہونا تھا۔
صلاحیتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔