Sadarti Nizam
صدارتی نظا م
صدارتی نظا م کی بحث بھی با لکل ایسی ہی ہے، جیسا کہ اکثر بعض حلقوں سے یہ سوال کیا جاتا رہا کہ پا کستا ن کیوں بنا؟ ہم نے پا کستا ن کیوں حاصل کیا، اگر ہم متحدہ ہندوستان میں رہتے تو اس سے کیا فرق پڑتا؟ جب سے پا کستان بنا ہے بھا نت بھا نت کی بو لیا ں بولی جا تی رہی ہیں۔ وہ مردِ مومن (قا ئدِ اعظم) جو خراب صحت کے باوجود پاکستا ن بننے سے پہلے مُلا حضرات سے لڑتا رہا، جن کے خیال میں نماز اور روزہ کی اجازت کے بعد الگ ملک ضرورت باقی نہیں رہتی، یہی مُلا حضرات پا کستان بننے کے بعد منہ اُٹھا کر پا کستان تشریف لے آئے۔ اور کہنے لگے، کہ ہم بتا ئیں گے کہ اسلا م کیا ہے؟
تم کیا جانو suited bootedکہ اسلا م کیا ہے؟ ہم بتائیں گے کہ اسلامی نظا م کیسے قائم ہو گا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک مذہبی فرقوں کی آپسی لڑائی جھگڑوں کی بدولت، اسلا م کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں اسلامی نظا م یا دین قا ئم نہ ہو سکا۔ اقبال نے علیحدہ ملک کا خواب ہی اس لیئے دیکھا تھاکہ، ہم بچپن میں کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ ہم اسلا می اُصولوں کی پریکٹس اپنے علیحدہ ملک میں کریں گے۔ دنیا سیاست کے نظا م میں بے تحاشا تجربات کر چکی ہے۔ لیکن انسانیت دیکھ رہی ہے کہ ہم کوئی بھی نظا م دنیا کو نہیں دے سکے، جسے انسانی آنکھ آئیڈیل کہہ سکے۔
اتنی سی بات تمام دانشوروں کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہم، علا مہ اقبال ؒاور قائداعظمؒ کی تحریریں اور شعری مواد میں بھی کافی کچھ موجود ہے، اگر ہم دیکھنا اور سمجھنا ہی نہ چاہیں تو اور بات ہے۔ ہم کیسے دیکھ اور سمجھ سکتے تھے؟ کیونکہ اس دور کی تاریخ میں علماء حضرات مسلسل قائد اعظم ؒاور علامہ اقبالؒ سے لڑتے رہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا ارشاد تھا کہ"گا ندھی جی نے جنگ ِآزادی میں اپنی مال اور جان دونوں لٹا دئیے۔ پس وہ فی الحقیقت مجا ہد فی سبیل الله ہیں۔" مضامین ِآزاد (صفحہ نمبر 19)
مولانا ابو الا علے مو دودی نے (ترجمانِ القرآن کے صفحہ نمبر 33) میں لکھا تھا کہ، "لیگ کے قائدِاعظم سے لےکر چھوٹے مقتدیوں تک، ایک بھی ایسا نہیں جو اسلا می زہنیت اور اسلا می فکر رکھتا ہو اور معا ملات کو اسلا می نقطہ نظر سے پرکھتا ہو"۔ قائدِاعظم محمد علی جناح ؒاس ماحول میں گھرا ہوا اکیلا لڑ رہا تھا۔ سمندر کی تلا طم حیز موجوں میں روشنی کا مینار، آج صدارتی نظا م کی بحث میں مجھے یہ ضرورت شدت سے محسوس ہوئی کہ، آنے والی نسلوں کو یہ تو بتاتی چلوں کہ جنھوں نے یہ ملک لیا، ان کے زہن میں کون سا نظام تھا؟
1943آل انڈیا مسلم دہلی کے سیشن میں اعلان کیا کہ، اس مقام پر میں زمیندار وں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے فتنہ انگیز، ابلیسی نظام کی روح سے جو انسانوں کو ایسا بد مست کر دیتا ہے کہ، وہ کسی معقول بات کے سننے کے لیئے امادہ ہی ہوتا، عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ عوام کی محنت کو غضب کر لینے کا جزبہ، ان کے رگ و پےمیں سرایت کر چکا ہے۔ میں اکثر دیہات میں گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا ہے کہ، لاکھوں خدا کے بندے ہیں جنھیں ایک وقت بھی پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟
کیا یہی پاکستا ن کا مقصد ہے؟ اگر پاکستان سے یہی مقصود ہے تو میں ایسے پاکستا ن سے باز آیا۔ اگر ان سرمایہ داروں میں ہوش کی زرا سی بھی رمک باقی ہے، تو انھیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہو گا۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا، تو ان کا خدا خا فظ۔ ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ دس سال تک وہ اپنی تقریروں میں یہی دوہراتے رہے۔
1 - نظا مِ سرمایہ داری نہیں، تھیا کریسی (مذہبی پیشوایت) نہیں، صرف خدا کی کتاب کی حکمرانی، ان چیزوں کو قوم کے سامنے نہیں لا یا گیا۔ پہلی پبلک تقریر جو بحیثیت گورنر جنرل کی حیثیت سے ریڈیو پر کی گئی تھی، جس میں امریکہ والو ں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ، ہمارا نظام ِ حکومت یا constitutionکیسا ہو گا؟
2 - اس کی امتیازی حصوصیت کیا ہو گی؟ اس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ، اس کی امتیازی حصو صیت یہ ہو گی کہ وہاں کسی شحص کی حکومت ہو گئی نہ کسی ادارے کی، نہ کسی پا رلیمان کی، نہ کسی جمہوریت کی، اس میں حکمرانی صرف خدا کی کتاب کی ہو گی۔ ہماری آزادی اور پا بندی کی خدود خدا کی کتاب متعین کرے گی۔ اس میں مذہبی پیشوائیت یعنی تھیا کریسی کا وجود نہیں ہو گا، ہمارا نظامِ حکومت کس قسم کا ہو گا؟
یہ بالکل واضح ہے۔ لیکن 70 سال سے معلو م نہیں کہ ہم کس ابہا م کا شکار ہیں؟ خدا جانے کون مردِ مومن آئے گا، جو قائدِ اعظم کے ان ارشاد ات کو پورا کرے گا!