Qaroon Aur Malik Riaz
قارون اور ملک ریاض

ملک ریاض طاقت اور دولت کا نمونہ، دولت کے ساتھ طاقت بھی خریدی جاتی رہی، یہ سب کیا تھا غلط نظام۔
پچھلے دونوں کالموں میں"مایوس نوجوان" اور "امید کے ساتھ" میں میں نے تواتر سے ٹھیک نظام اور غلط نظام کے الفاظ دوہرائے ہیں، لیکن ہمارے نوجوانوں نے جنتی نظام کو شاید آخرت کے لئے مخصوص کر رکھا ہے اس لئے کہ مذہبی پیشوائیت ہمیں یہی افیون پلاتی رہی ہے۔
لیکن دین اسلام میں امیر اور غریب کا کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ طبقاتی ناہمواریاں اور تمیز بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ آج کل کے نوجوان کے ذہن میں کوئی ایسی دنیا کا تصور ہی نہیں رہتا جہاں امیر اور غریب کا فرق نہ ہو۔ آ بھی کیسے سکتا ہے؟ قرآن میں جھانکیں جو جنت کا نقشہ، آسائشیں، بلند ترین رہائشیں، محلات، بڑے بڑے قالین، صوفے، زرو و جواہرات، موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ہونگے۔ یہ صرف آخرت کی زندگی میں نہیں ہے بلکہ اگر ہم قرآن کا دیا گیا نظام قائم کر لیتے ہیں تو یہ سب کچھ بلا تفریق ہر انسان کو میسر آئے گا۔ جب ہم دعا مانگتے ہیں کہ
ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الآ خرت حسنا
تو اس کا یہ یہی مطلب ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی خوشگواریاں۔
ہمارے دین کا تو سب سے بڑا دعوی "و لقد کرمنا بنی آ دم" یعنی ہر انسان عزت کے قابل ہے جب امیر غریب کو خیرات کے ٹکرے ڈالتا ہے تو عزت کہا باقی رہتی ہے۔
تاریخ انسانی کی سب سے بڑی لعنت ہامان، فرعون اور قارون ہیں جو انسانیت کو کھا گئی۔ قارون کہ جس دعوی کا قرآن میں زکر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ میری محنت کا نتیجہ ہے۔ وقت بدل گیا لیکن قارون کی ذہنیت نہ بدلی۔
آج بھی ہر سرمایہ دار کی یہی ذہنیت ہے کہ یہ میری محنت کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے الفاظ کو اقبال نے دہرایا ہے۔
اوہ خدایا، یہ زمین تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
ملک ریاض ملک سے فرار ہے اس کے خلاف مقدمات درج ہیں، بہت سے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے لیکن سوال اس نظام کا ہے جہاں ملک ریاض پیدا ہوتے چلے جائیں گئے، ہمیں وہ نظام لانا ہے جس کے لئے یہ ملک بنایا گیا تھا لیکن قوموں کے عروج و زوال میں بہرحال وقت درکار ہوتا ہے۔ امریکہ کو معرض وجود میں آئے ہوئے اڑھائی سو سال ہو جائیں گئے اور وہ تقریباََ سو سال بعد ابھرا، ہمیں تو ابھی سو برس بھی نہیں ہوئے، اگر آج ملک ریاض کی پکڑ کی باتیں ہو رہی ہیں تو کل یہ نظام قائم ہو کر رہے گا جس میں ہر ایک کو اس کی محنت کا نتیجہ ملے گا اور دولت صرف چند لوگ ہی نہیں سمیٹیں گئے بلکے پورے معاشرے میں گردش کرے گئی۔ اس نظام کی طرف قدم بڑھنے شروع ہو گئے ہیں، رفتار زرا آہستہ ہے۔

