Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Pehla Roza

Pehla Roza

پہلا روزہ

آج پہلا روزہ ہے۔ ہر سال رمضان آتا ہے اور ہر سال رمضان کی خوشی، اس کی تیاری کا جوش و جذبہ بالکل ویسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس سال مجھے رمضان کی سب سے زیادہ خوشی اس لئے ہے کہ آج تمام دنیا کے مسلمان ایک دن روزہ رکھ رہے ہیں۔ باقی دنیا میں تو کعبہ کو مرکز مان کر روزہ رکھتے ہیں جیسے مغربی ممالک میں رہنے والے۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ آج تو اللہ نے ہمیں ایک دن روزہ رکھوا دیا کیونکہ جس چاند کی تصویر میں نے ٹی وی پر دیکھی ہے وہ اس قدر واضح تھی کہ انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ حالانکہ ہماری رمضان کی تیاری مکمل نہیں تھی۔

کعبہ ہی ہم سب کا مرکز ہے۔ لیکن ہم ان تعلیمات کو بھول گئے ہیں جو ہمارے رب نے ہمیں اپنی تمام الہامی کتابوں کے ذریعے دیں۔ سب الہامی کتابوں میں تعلیم ایک ہی تھی لیکن سب میں ردوبدل کر دیا گیا لیکن قرآن کی حفاظت کا ذمہ رب نے لیا اس نے کہا کہ ہم نے اس کو اتارا اور ہم ہی اس کے مخافظ ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں تو ہم ردوبدل نہ کر سکے، ہم نے اس کے لفظوں کو نہ چھیڑا لیکن اتنے فرقے بنا ڈالے کہ ہر فرقہ اپنی اپنی مرضی کی تشریخ کرنے لگا۔ شکر ہے کہ ہمارے پاس قرآن مجید ہے اور ایک دن ہم قرآن کا نظام اس دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ رب کا دعویٰ ہے کہ حق غالب آ کر رہتا ہے۔

اگر انسان خدا کا رفیق بن جائے تو یہ دنوں میں غالب آ جاتا ہے۔ ورنہ اپنی کائناتی رفتار سے اس نظام کو بحرحال غالب آنا ہے۔ اس مہینہ میں غریب، مفلس اور نادار بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اکثر اوقات راشن ملتا ہے، زکوٰة ملتی ہے اور خیرات بہت زیادہ ہم مسلمان دیتے ہیں اور اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا، جنت میں بڑا نہ سہی چھوٹا موٹا گھر تو مل ہی جائے گا۔

رمضان کا مہینہ بنیادی طور پر مسلمانوں کی ٹریننگ ہوتی ہے اس نظام کی طرف قدم ہوتا ہے جو مسلمانوں کو قائم کرنا ہے۔ زکوٰة، خیرات صرف رمضان کے مہینہ کے لئے مختص نہیں ہوتی، یہ نظام تمام سال بلکے تمام زندگی چلنا ہے۔ ہم ایک ماہ کہ روزے رکھ کر اور زکٰوة، خیرات دے کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ حقیقتاََ خدا کے نظام کے قیام کے لئے جدوجہد تو قبر تک جاری رہتی ہے۔ اِسی لئے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔

قرآن کریم کا مقصد ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں شرف و تکریم انسانیت کا فروغ ہو اور کوئی انسان نہ کسی دوسرے انسان کا محکوم ہو نہ مختاج۔ پابندی ہو تو اُن اقدارِ خداوندی کی جن کے تخفظ سے یہ نظام قائم رہتا ہے۔ اس میں نہ کسی انسان کو حقِ حکومت حاصل ہوتا ہے۔ نہ نظامِ سرمایہ داری بار پا سکتا ہے۔

قریش کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہ نظام مکہ چھوڑ ملک کے حصے میں بھی قائم ہوگیا تو اس کے انسانیت ساز نتائج میں اس قدر کشش ہوگی کہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف کھینچے چلے جائینگے۔ اور اس طرح قریش کی زندگی کا سارا کا نظام تہہ و بالا ہو جائے گا۔ ان کی زندگی کا سارا کاروبار غلاموں کے سر پر چلتا تھا اور اسلامی نظام میں آقا اور غلام کی تمیز ہی نہیں رہتی۔

رمضان کا مہینہ یہ نظام قائم کرنے کی طرف پہلا قدم تھا، یہ ٹریننگ کا مہینہ ہوتا ہے۔ معاشرہ میں وہ لوگ جن کی آمدنی کم ہے وہ اپنا حق خیرات کے طور پر نہیں بلکہ as a right وصول کر سکتے ہیں۔ اس سے انسان احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ state تمام انسانوں کی تمام ضرورتوں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لئے پا کستان بنا تھا لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا

کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez