Pakistan Aur Saudi Arab Ka Difai Moahida
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ

آج نو ستمبر کو قطر میں اسرائیلی کاروائی کے بعد خلیجی ریاستیں سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ ہمیں ایسا کون سا قدم اٹھانا چاہیے جو عرب دنیا کے لئے بہتر ہو اور پھر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوگیا جس کی بدولت سیاست میں چونکا دینے والی پیش رفت ہوئی۔ اس معاہدے کے تخت کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔
2025، کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کے لئیے کامیابیوں کے دروازے کھول دئیے ہیں اور دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا پاکستان جو اللہ کے نام پر 27 رمضان المبارک کو قائم ہوا اور رب نے یہ عزت پاکستان کے نام لکھ دی، ہم مکہ اور مدینہ کے پاسبان بن گئے اور حرم کے پاسبان عجم بن گئے۔
قدرت کے منصوبوں کو ہم نہیں جانتے وہ تو کائناتی رفتار سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اپنے بھائیوں سے کیا شکوہ کروں جب مودی کو سعودی عرب نے ہائی سولین ایوارڈ دیا اس وقت ہمیں بہت دکھ تھا کہ ان کو کشمیر کے ظلم بھی دیکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان تو ہمیشہ اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں شریک رہا اور ان کے لئے آواز اٹھاتا رہا، بے شک وہ کمزور آواز تھی لیکن اب وہی رب ہے جس نے ہمیں پاسبان حرم بنا دیا۔
قدرت نے اپنے گھر کی خفاظت کرنی ہے اگر اس کی حفاظت کرنے والوں میں کچھ کمییاں رہ جائیں تو قدرت کسی اور کو آگے لے آتی ہے جس میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو۔
قدرت کا قانون اٹل ہے وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتا۔
چیرہ دست ہیں فطرت کی تعزیریں
آخر کار قدرت کا قانون عربیوں اور عجمیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آیا۔
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
آج میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے ان تمام دوستوں سے سوال کروں جو ہمارے دفاعی بجٹ کے حوالے سے سوالات اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ سارا بجٹ فوج کھا گئی، بجٹ تعلیم اور میڈیکل پر خرچ ہونا چاہیے، ان شعبوں میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے لیکن پھر وہی بات جو مجھے بار بار دہرانی پڑتی ہے کہ اس مملکت کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور یہ ہر مسلمان کی بھی اولین ترجیح ہوتی ہے کیونکہ اگر یہ قائم رہا تو ہی پھر اللہ کا نظام قائم ہوگا۔
اب ائیر مارشل جنرل عاصم منیر اور شہباز شریف خادمین حرمین شریفین بن گئے۔ دنیا کو ہماری طاقت کا اندازہ، دشمنوں کی بے وقوفیوں کی وجہ ہوگیا اور یہ جنگ ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئی۔
1973 میں عربوں اور اسرائیل میں جنگ چھڑی اور ایک امریکی سینٹر جو کہ اسلحہ کمیٹی کا سر براہ تھا اسیے "گولڈہ مائیر" کے پاس لے جایا گیا اور اسرائیلی وزیر اعظم گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو خاتون کی طرح اسے چائے بنا کر خود پیش کی اور اسی چائے کی میز پر طیاروں، میزائیلوں اور توپوں کا سودا طے کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اسرائیل شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا اور امریکہ نے بھی اسرائیل سے منہ موڑ لیا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اسرائیلی کابینہ نے بھی اس بھاری سودے کو رد کر دیا تھا کیونکہ اس کی بدولت اسرائیلی قوم کو 20 برس تک ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا پڑنا تھا، اس پر گولڈہ مائیر نے ان کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو قوم فاتح قرار پاتی ہے تو دنیا اس کے بارے میں بھول جاتی ہے کہ انھوں نے کتنا مکھن، کتنا شہد کھایا تھا یا ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے، فاتح صرف فاتح ہوتا ہے اور گولڈہ مائیر کی دلیل اتنی بھاری تھی کہ اس نے کابینہ کو رضا مند کر دیا اور ایک دفعہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائرہ کا انٹرویو کیا اور جو سوال کیا وہ ہم سب مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔
آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر عرب جنگ ہار گئے اور اسرائیل جیت گیا اور عربوں کے کئے علاقے اسرائیل کے قبضے میں آ گئے جو آج تک ہیں۔
جنگ کے بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو کیا تو گولڈہ مائیر نے بتایا کہ میں نے اپنے دشمنوں کے نبی (محمد) ﷺ سے یہ استدال لیا، جب نبی ﷺ کا وصال ہوا تو ہجرے کی دیواروں پر سات تلواریں لٹک رہیں تھیں جو انکی ذاتی تھیں۔
میں نے سوچا کہ اس وقت کتنے لوگ ہونگے جو مسلمانوں کی اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گئے اور اس وقت مسلمان آدھی دنیا کے فاتح تھے۔ گولڈہ مائیر نے درخواست کی کہ وہ اس سارے واقعے میں، محمد، ﷺ کا زکر حذف کر دیا جائے کیونکہ اگر اس وقت یہ منظر عام پر آ گیا تو اس کے لوگ اس کے خیلاف ہو جائیں گئے، یہ واقع اس وقت سامنے آیا جب ایک نامہ نگار دنیا کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو کرنے والے نے بتایا کہ میں بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ طارق بن زیاد جس نے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس تک نہیں تھا، وہ 72-72 گھنٹے سوکھی روٹی اور پانی ہر گزارا کرتے تھے۔
پر شکوہ محلات، رزق برق لباس، سونے چاندی کے ڈھیر، یہ سب آپ کو فاتح نہیں بنا سکتے۔
حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ مومن ہر وقت جہاد میں مصروف ہوتا ہے، جب جنگ ہو رہی ہو تو بے جگری سے لڑتا ہے اور نہ ہو رہی ہو تو اس کی تیاری میں مصروف۔
مسلمان ہر وقت اپنی سرحدوں کی حفاظت میں مصروف رہتا ہے۔
اور ان مسلمانوں کے بارے میں رب نے کہا "ولن یجعل اللہ للکفرین علی المومنین سبیلا"
یہ نہیں ہو سکتاکہ کفار کو مومنین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ اگر کفار کو مومنین پر غلبہ حاسل ہو جائے تو سمجھیں کہ ہم مومن نہیں۔ اب ہمیں سمجھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور اللہ نے جو عزت پاکستان کو دی ہے ہم اس کو قائم و دائم رکھیں۔

