Pakistan Aur Afghanistan Ke Taluqat Ki Timeline
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی ٹائم لائن

مسلمانوں کی تاریخ اور ان کا عروج و زوال ایک داستان اپنے اندر رکھتا ہے۔ مسلمانوں کا عروج اس وقت کی طاقتور ریاستیں، ایران اور روم کی شکست کو دنیا آج بھی منہ میں انگلی دبائے حیرت سے دیکھ رہی ہے، لیکن وہ نقطہ جب ہم زوال پزیر ہوئے، اس کا یاد رکھنا سب سے زیادہ ضروری تھا، لیکن ہم بھول جاتے ہیں لیکن یہی چیز یاد رکھنے کے قابل ہے۔
آج ہم اس ماضی کا زکر کریں گئے کہ ہم زوال پزیر کیسے ہوئے؟
اب اگر میں ان افغانیوں سے شروع کروں تو میرے بہت سے قارئین مجھے تنقید کی نظر سے دیکھ رہے ہوں گئے کہ کہاں کی بات کہاں ملا دی، لیکن جب دشمن سازش کرتا ہے تو اس کی کڑیاں بہت پیچھے سے ملائی جاتیں ہیں اگر ہم اپنا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
آج میں ان افغانیوں کا زکر کروں گئی جنھیں ہم نے 40 برس سے زیادہ پالا، اپنے ملک میں جگہ دی، یہ سوچ کر کہ یہ مسلمان ہیں، ہمارے بھائی ہیں لیکن بھائیوں کے اندر منافقین چھپے بیٹھے تھے۔
پاک افغان تعلقات کی ٹائم لائن میرے سامنے ہے، اس کے مطابق پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جب 30 ستمبر 1947 کو پاکستان کو خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کرنے کا وقت آیا تو افغانستان وہ ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کئے جانے کی مخالفت کی، پھر ستمبر میں افغانیوں نے پختونستان کا نقشہ جاری کیا جس میں گوادر بھی ان کا حصہ تھا، انھوں نے پاکستان میں موجود قبائیلیوں کو پاکستان کے خلاف ابھارا اور پرنس عبد الکریم کی سر براہی میں پاکستان کے خلاف لڑائی کے لئے تربیتی کیمپ قائم کئیے گئے۔
1949 میں ان کی ائیر فورس نے پمفلٹ گرائے اور ان سے کہا گیا کہ 12 اگست 1949 کو افغانستان کے ساتھ پاکستان نے سفارتی تعلقات ختم کر لئے۔ پھر 31 اگست 1949 کو افغانستان میں جرگہ ہوا اور پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد مسٹر فقیر نے پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا وار لڑنے کا اعلان کیا۔ 1949 میں ہی افغانستان نے پاکستان پر حملہ کیا اور چمن کے باڈر کے اندر گھس آئے اور بہت سی جگہوں پر قبضہ کرکے افغانستان کے پرچم لہرا دئیے۔
پاکستان آرمی کوئٹہ سے گئی اور ان کو وہاں سے نکال دئیا گیا۔ 1950 میں افغانستان نے بھارت کے ساتھ پہلا معاہدہ کیا کہ ہم پاکستان کو اردگرد سے گھیریں گئے اور ستمبر 1950 کے اندر افغان فوج نے ہوگرا پاس بلوچستان میں حملہ کر دیا اور ایک ہفتے تک اس پر قابض رہے، پھر پاک فوج وہاں پہنچی اور ان کو وہاں سے نکالا۔ 16 اکتوبر 1951 میں افغان قوم پرست سعد اکبر بیرک نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کر دیا۔ (لیاقت علی خان وہ وزیر اعظم تھے جن کا ہر عمل اسلامی ریاست کی طرف ایک قدم تھا، کیونکہ انھوں نے عام سطح پر زندگی گزار کر اپنے آپ کو نمونے کے طور پر پیش کیا۔ ان کو شہید کرنے کی وجہ یہ ہی تھی)۔
6 جنوری 1952 میں افغانستان کے برطانیہ میں سفیر شاہ ولی خان نے روزنامہ ہندو کو بتایا کہ پشتونستان کے اندر، چترال، باجوڑ، سوات، وزیرستان اور بلو چستان کے کئے علاقے شال کئے جائیں گئے۔
26 نومبر 1953، کو افغانستان کے سفیر غلام یحیحی نے ماسکو کا دورہ کیا اور روس سے کہا کہ وہ پاکستان کے خلاف ان کی مدد کریں اور مارچ 1955 میں صدر داؤد خان نے روس کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا اور ساتھ ہی پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان کا وجود قائم نہیں رہنے دیں گئے۔ 29 مارچ 1955 کو جلال آباد اور قندھار میں پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور وہاں پر پاکستان کے کونسل خانوں کو آگ لگا دی گئی، 1950میں افغانستان نے باڈر پر بڑے کھمبے لگا دئیے جن پر دن رات پاکستان کے خلاف ترانے لگائے جاتے تھے، 1950میں ہی افغانستان کی فوج پاکستان میں داخل ہوگئی۔
1960 میں افغان فورسز نے چوکیوں کے اوپر مشین گن کے فائر کھول دئیے۔ ستمبر 1960 میں افغانستان کے ٹینک باجوڑ میں گھس آئے، 1960 میں پھر افغانستان نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے مراکز کھولے اور جب 1965 کی جنگ ہو رہی ہے اور دوسری طرف افغا نستان بھی ہاکستان پر حملہ کرتا ہے، 1970 میں قابل میں پھر پاکستان کے خلاف کیمپ بننے شروع ہوئے اور پشتونوں، بلوچیوں کو وہاں لایا گیا اور اجمل خٹک ان کے نمائندے قرار پائے۔
1971 میں پاکستان کی بھارت کے جنگ کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا، اس وقت بھی افغانستان نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے بنائے، 1972 کے اندر اجمل حٹک کی راہنمائی میں بلوچیوں کو پاکستان کے خلاف تیار کیا جاتا رہا، پختون زلمے کے نام سے ایک دہشت گرد گروپ کو لانچ کیا گیا، 1974 میں افغانستان نے پھر عظیم افغانستان کا نقشہ جاری کیا جس میں پورا بلوچستان اور خیبر پختون خواں کو افغانستان کا حصہ دیکھایا گیا۔
1975 میں پشتون زلمی خیبر پختو نخوا کے گورنر کو قتل کر دیا، 1975 کے اندر انقلاب آیا تب داؤد خان کو فارغ کر دیا گیا، نئی حکومت نجیب اللہ کے ہاتھ آئی اور اس نے کمیونیزم لانچ کرنے کا فیصلہ کیا اور بعد میں روس کو آنے کی دعوت دے دی گئی، 1979 میں روس کی افواج پاکستان کے اندر داخل ہوگئیں، اس دوران پاکستان میں بھی مارشل لاء لگ گیا اور 1979 میں روس نے افغانستان میں اپنی ایک لاکھ افوج داخل کر دی، یہ افواج طور خم پر پہنچی، 1980 میں ذوالفقار تنظیم نے طیارہ اغوا کرکے افغانستان کے شہر قابل لے گئے۔
بعد ازاں را اور زوالفقار تنظیم پاکستان میں دہشت گردی کی واردات کرتی رہیں جن کے تانے بانے انڈیا اور اور افغانستان میں تیار کئے گئے۔
افغانستان پر روس اور امریکہ کا داخلہ اور جنگیں، سب پاکستان نے لڑ یں۔ پس پردہ روس اور امریکہ دونوں کے عزائم پاکستان پر قبضے کے تھے جو افغانستان کے راستے آسان تھا، ہم نے افغانستان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کے ساتھ اپنے بقا کی جنگ بھی لڑی۔
افغانستان کی جنگ کے نتیجے جو نقصان پاکستان نے اٹھایا، اس میں سب سے بڑا نقصان تھا کہ مسلمانوں کے بھیس میں منافقین ہمارے ہاں آئے اور دہشت گردی کی ایسی لہر آ گئی جس کے ساتھ ہم آج تک نبرد آزما ہیں۔ منافقین کی یہ داستان مسلمانوں کی تاریخ میں نئی نہیں ہے اس کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔
ہم اگر دور عمر فاروقی میں چلے جائیں اور ایران کا شکست خوردہ گورنر ہرمزان تک پہنچیں جب وہ گرفتار ہو کر آیا اور حضرت عمر کے سامنے لایا گیا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ ہرمزان۔ یہ کیا بات ہے کہ اس سے پہلے جب بھی ہم تم لوگوں کے سامنے آتے تو تم ہمیں آسانی سے پسپا کر دیتے تھے اور اب ہم تمھاری پوری مملکت کو فتح کئے جا رہے ہیں اور تم ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔
ہرمزان کا جواب رہتی دنیا تک تاریخ میں لکھا جائے گا اس نے کہا "ایرانیوں کے لئے تنہا عربوں کو شکست دینا کچھ بھی مشکل نہیں تھا لیکن اب جو جنگ ہوتی ہے تو اس میں ایک طرف تنہا ایرانی ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان کا خدا۔ اب ہمارے لئے دونوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں اس لئیے ہم شکست کھائے جا رہے ہیں"۔
سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کی دیدہ وری تھی کہ انھوں نے اس راز کو پا لیا تھا کہ مسلمانوں کی قوت کا راز کیا ہے؟ اور اس راز کو پا لینے کے بعد انھوں نے ہمارا اللہ ہم سے چھین لیا۔ کس طرح؟
وہ ہمارے اندر مسلمان بن کر شامل ہوئے اور ہمارا سب کچھ چھین لیا۔ ہمارا دین اور ہماری قوت کا راز سب کچھ۔
ایران کی ہزار سالہ تہذیب مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہوگئی تھی، ایران کے باشندے مسلمان ہوئے، شاہ ایران یزد گرد نے ویلم کی قوم سے ایک منتحب دستہ تیارکیا، جس کی تعداد چار ہزار تھی جو بادشاہ کا لشکر خاص کہلاتا تھا۔ فتح قادسیہ کے بعد یہ لشکر ایرانیوں سے الگ ہو کر اسلام لے آیا اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی اجازت سے کوفہ میں آیا۔
یزد گرد جب اصفہان کی طرف روانہ ہوا تو اس نے سپاہ کو اسلامی فوج کے مقابلے کے لئے روانہ کیا اور وہ مقابلے کی بجائے اپنے لشکر سمیت مسلمان ہوگیا اور یہ سب بصرہ میں آباد ہو گئے اور ہرمزان تو نوشیرواں کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، اس کی رکاب میں جو فوج تھی اس میں بھی بیشتر مسلمان ہو گئے تھے۔ یزد گرد کا زاتی لشکر شاہنشاہ کے مشیر خاس تھے جو "اساورہ" کہلاتے تھے۔
یہ ایسا نظر آتا ہے کہ ان سب کا اسلام لانا زیادہ تر ایک سازش تھی۔ (اگرچہ ان میں کچھ لوگوں نے خلوص دل سے بھی اسلام قبول کیا تھا لیکن ان کی تربیت کا مناسب انتظام نہ ہو سکا اور حضرت عمر کی شہادت بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی اور پھر ہمارے دین کے ساتھ کیا ہوا؟ فرقوں کا وجود، منافقین کی بھر مار جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر موجود ہیں۔
اللہ نے مسلمانوں کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہم منافقین کے بارے میں آپ کو نہیں بتائیں گئے کہ وہ کون ہیں آپ کو ان کے روئیوں سے پہہچاننا ہوگا اور جب کوئی اسلام کا ٹھیکیدار بن کر ہمارے دشمنوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو ہمیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگانا چاہیے کہ منافقین کون ہیں؟
اللہ کے نام پر قائم کئے گئے اس ملک کا وجود منافقین کو گوارا نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اندرونی اور بیرونی تمام منافقین کو سمجھ لیں۔

