Mere Quaid
میرے قائد
پچھلے دنوں خان صاحب گورنمنٹ کالج گئے۔ وہاں کے وائس چانسلر اصغر زاہد صاحب نے عمران خان کو ہمارے قائد کہہ کر پکارا۔ اس پر اصغر صاحب پر تنقید ہو رہی ہے۔ انسان کے اپنے خیالات اس کے ذاتی ہوتے ہیں، اس میں کسی دوسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے سب کے قائد صرف ایک ہی تھے اور وہ تھے واقعی ہمارے قائدِاعظم۔
مجھے میرے نوجوان بے حد عزیز ہیں اور ان نوجوانوں کو بتانا بے حد ضروری ہے کہ قائد کیا ہوتا؟ بھٹو ہو یا نواز شریف ہو یا بےنظیر یا فضل الرحمٰن یا اور اپنی پارٹیوں کے قائد وہ سب اپنی پارٹی کے سربراہ تو ہونگے، لیکن ہم سب کے قائد قائدِاعظم ہی تھے۔ وہی مردِ مومن تھا جس نے برِِصغیر پاک و ہند کا نقشہ بدل دیا۔
ایک دفعہ وائسرائے نے ملاقات کے لئے بلایا۔ گیارہ بجے کا وقت مقرر تھا، قائدِاعظم وقت کے بہت پابند ہوا کرتے تھے جو قائدِاعظم کو جانتے تھے ان کو معلوم تھا، گھنٹی پر گھنٹی بج رہی ہے۔ خود جواب نہیں دے رہے، اپنے پرسنل سیکٹری سے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی سہولت کے مطابق آؤنگا۔ تھوڑا وقت لگے گا۔ وائسرے کو جواب دیا جا رہا ہے۔ آپ اس نزاکت کو سامنے رکھیے کہ وہ وائسرائے ہے اور وقت مقرر ہے۔
خیر وہاں پہنچے تو وائسرائے نے کہا کہ یہ جو بار کونسل کا قصہ ہے، میں اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، قائدِاعظم نے کھڑے کھڑے ہی کہہ دیا کہ مجھے آپ کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں اور کمرے سے باہر نکل آئے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ہندو لیڈر کانجی دوارکا داس لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر دل میں مسرت کی لہر دوڑنے لگتی ہے کہ ہندوستان میں مسٹر جناح جیسی دیانت کا ایک لیڈر تو کم از کم ایسا ہے، جس میں اس قدر صداقت، بے باکی، اُصول پسندی تھی کہ اس نے انگریز وائسراے کے منہ پر کہہ دیا کہ وہ اس کو کیا سمجھتا ہے۔
جبکہ باقی ہندوستانی لیڈر جن میں کانگرس ہائی کمان بھی شامل ہے اس وائسرائے کو بہترین عیسائی جنٹلمین اور بہترین انگلش جنٹلمین کہہ کر اس کی چاپلوسی کرتے رہتے ہیں۔ مسز لکشمی پنڈت (پنڈت نہرو کی بہن) نے یہ کہا تھا کہ اگر کانگرس کو مسٹر جناح جیسا ایک لیڈر مل جائے تو لڑائی انگریز کے ساتھ آج ختم ہو سکتی ہے۔ مصلحت، مفاہمت، نظریہ ضرورت، ان کی لغت میں ہی نہیں تھا۔ آج ہمارے نوجوان خان صاحب کی طرف دیکھ رہے ہیں جو امریکی مداخلت والے ڈرامہ میں یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ امریکہ کا نام نہیں لینا صرف کھیلنا ہے۔ امریکی سفیروں سے کے پی کے میں ملاقات کر کے گاڑیوں کے تخفے قبول کرتے ہیں۔
ہندؤں کے مقابلے میں کلکتہ چیمبر میں ایک سیٹ خالی تھی، وہ سیٹ ٹیسٹ تھا اس بات کا کہ یہاں مسلمانوں کی کتنی طاقت ہے۔ آج ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ساری سیٹیں ہماری ہیں، مسلمانوں کی اکثریت وہاں تھی، اس کے باوجود کبھی سیٹ نہیں ملتی تھی۔ اصفہانی وہاں سیٹ کے لئے کھڑے ہوئے، بلا مقابلہ کھڑے ہوئے۔
انتخاب کے عین دو دن پہلے، ایک اور شخص بھی کھڑا ہو گیا، انھیں تشویش ہوئی کہ اب ووٹ بٹ جائیں گیں۔ عبدالرحمٰن صدیقی ان کے ساتھی تھے۔ وہ ایک شام آئے، اصفہانی نے خود اپنی کتاب میں اس واقعہ کو لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ قائدِاعظم دور بیٹھے تھے، کہا کہ قریب آ کر مجھے بھی بتاوْ کہ کیا بات ہے؟
پھر انھوں نے قائدِاعظم کو بتایا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وہ جو فریقِ مقابل اُمیدوار کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ بات ہو گئی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر آپ میری ضمانت کا حصہ دے دیں تو میں بیٹھ جاتا ہوں پھر اصفہانی بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے۔ آپ نے سنا، اصفہانی لکھتے ہیں کہ رنگ سرخ ہو گیا غصے کے مارے، کہا کہ فریقِ مخالف کو بیٹھا دینا اس کی ذرِ ضمانت واپس دے کر، یہ بل واسطہ رشوت نہں تو اور کیا ہے؟
یہ کبھی نہیں ہو گا، جاوْ اور اس سے کہو کہ ہمیں یہ منظور نہیں، ہم مقابلہ کریں گے۔ ہم ناکام رہ جائیں گے، ہم رشوت دے کر نہیں جیتیں گے۔ ایک سیٹ نہیں، ایک ایک ووٹ قیمتی تھا اس زمانے میں۔ بھیج دیا عبدالرحمٰن کو اور معاملہ منسوخ کر دیا، اس کے بعد جو اُصول بیان کیا ہے وہ سنہری خروف سے لکھنے کے قابل ہے۔
میرے عزیز یاد رکھو! پبلک لائف میں دیانت، پرائیوٹ لائف میں اخلاقی دیانت سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ پرائیوٹ لائف میں بد دیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان پہنچتا ہے، لیکن پبلک لائف میں بد دیانتی سے لاتعداد انسان مجروح ہوتے ہیں اور اس سے ہزارہ ایسے لوگ بے راہ رو ہو جاتے ہیں جن کا آپ پر اعتماد ہوتا ہے۔ یاد رکھنا! سیاست میں کسی مقام پر بھی ایسا نہ کرنا کہ اصُولوں کو چھوڑ کر کوئی چیز خرید لو۔
ان سطروں کو بار بار پڑھیں اور خان صاحب کے وہ الفاظ لے کر آئیں جو وہ کہتے ہیں کہ میں نے امریکہ کا نام نہیں لینا صرف کھیلنا ہے اور عام پبلک کو خط اور سائفر میں فرق سمجھایا نہیں جا سکتا، اس لئے خط ہی کہنا ہے، یہ آپ کا لیڈر اپنی پبلک سے کہہ رہا ہے۔
یاد رہے مسلم لیگ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ سرمایہ داروں، زمیداروں، کارخانہ داروں کی جماعت ہے، ٹھیک ہے یہ لوگ ساتھ تھے، اس وقت تک جب تک وہ اس نظریہ میں ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے تو قائدِاعظم ان کو ساتھ رکھ لیتے، کیونکہ اُس وقت قوت کی بحرحال ضرورت تھی۔ 1943 میں آل انڈیا مسلم لیگ دہلی میں اعلان کیا کہ میں اس مقام پر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے فتنہ انگیز ابلیسی نظام کی روح سے جو انسان کو ایسا بدمست کر دیتا ہے کہ وہ کسی معقول بات کے سننے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتا، یہ طبقعہ عوام کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی پر رنگ رلیاں مناتا ہے۔
عوام کی محنت کو غصب کر لینے کا جزبہ ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ میں اکثر دیہات میں گیا ہوں، وہاں میں نے دیکھا ہے کہ لاکھوں خدا کے بندے ہیں جنھیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر یہی پاکستان کا مقصود ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔ اگر ان سرمایہ داروں کے دماغ میں ہوش کی ذرا سی رمک بھی باقی ہے تو انھیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہو گا، اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان کا خدا حافظ، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے، جس وقت ایک ایک شخص کی ضرورت تھی، ایک ایک پیسے کی ضرورت تھی۔
قائدِاعظم نے تین باتیں کہی تھیں۔
1) پاکستان میں نظامِ سرمایہ داری نہیں ہو گا۔
2) مذہبی پیشوایت کی حکمرانی نہیں ہو گی، جسے تھیا کریسی کہتے ہیں۔
3) اس مملکت میں صرف خدا کی کتاب کی حکمرانی ہو گی۔
ایسے ہوتے ہیں قائد۔