Khan Sahib Ke Fan Club Ko Challenge
خان صاحب کے فین کلب کو چیلنج
خان صاحب اب بھی اپنے ہر خطاب میں"امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ خان صاحب کو خود بھی معلوم نہیں کہ حقیقتاََ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کیا ہے؟ میں یہ کالم خاص طور پر خان صاحب اور ان کے فین کلب کو بتانے کے لئے لکھ رہی ہوں کہ "امر بالمعروف ونہی عن المنکر کیا ہے"؟"المعروف" ہر وہ کام جس کی تائید قرآن سے ہوتی ہو، اور جسے اسلامی مملکت approve کرتی ہو۔ دوبارہ اس لفظ پر زور دیں کہ ہر وہ کام جس کی تائید قرآن سے ہوتی ہو۔
اب آ جائیں خان صاحب کے دورِ حکومت کی طرف۔ گھڑیوں کا معاملہ، کف لنگ، کراکری، جیولری اور نہ جانے کیا کیا شامل ہے۔ بعض گھڑیوں کی جگہ replica رکھے گئے۔ تحائف فروخت کیے گئے۔ تخائف کے بدلے نہایت معمولی رقم جمع کروائی گئی۔ اربوں روپے توشہ خانہ کے تخائف سے کمائے گئے۔ یہ سب کچھ خان صاحب "میرا تخفہ، میری مرضی" کہہ کر تسلیم کر چکے ہیں۔
اب ہم داخل ہوتے ہیں خلافتِ راشدہ کے دور میں، جس میں اسلامی نظام جیتی جاگتی شکل میں دنیا کے سامنے آیا، جس دور میں واقعی "المعروف" پر عمل ہوتا تھا۔
ایک دفعہ شاہ روم کا قاصد آیا تو ملکہ کی طرف سے "فرماں روائے اسلامیہ کی بیگم" کے لئے ہدیہ لایا۔ حضرت عمر کی بیوی نے ایک دینار قرض لیا، عطر خریدا اور اسے شیشیوں میں بند کر کے ملکہ روم کو بھیج دیا۔ اس نے تحفہ موصول ہونے پر، انہی شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس بھیج دیا۔ آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے سارے جواہرات فروخت کر کے ایک دینار بیوی کو دے دیا اور باقی رقم بیت المال میں داخل کر دی اور بیوی کو آئندہ محتاط رہنے کی تلقین کی، اُس وقت المعروف پر عمل ہوتا تھا۔
ایک دفعہ بیت المال میں خوشبو آئی تو آپ نے اپنی بیوی کو دی کہ وہ اسے فروخت کر کے رقم بیت المال میں جمع کرا دے، آپ کی بیوی (عاتکہ) نے خوشبو بیچی تو جو انگلیوں پر لگی رہ گئی اسے دوپٹے پر مل لیا۔ خوشبو نے بحرحال غمازی کرنی تھی، اس نے کر دی، تو آپ نے بیوی سے کہا کہ تمہیں خوشبو بیچنے کے لئے دی گئی تھی، نہ کہ اس لئے کہ مسلمانوں کے مال سے نفع اندوز ہوا جائے۔ یہ کہہ کر بیوی کا دوپٹہ دھو ڈالا، اس پر بھی خوشبو نہ گئی تو اسے مٹی سے ملا، اور جب تک خوشبو اتر نہیں گئی، ایسا ہی کرتے رہے۔
اُس وقت "المعروف" پر عمل ہو رہا تھا، اور جب خان صاحب کو اطلاع دی گئی کہ آپ کی فیملی کرپشن میں ملوث ہے تو اطلاع دینے والے وقت کے موجودہ جنرل عاصم منیر تھے۔ وہ اُس وقت "المعروف" پر قائم تھے جو اپنے فرض کی ادائیگی کے جرم میں عہدے سے ہٹا دئیے گئے۔
اس کے برعکس "منکر" ہر وہ عمل جو اسلام کے خلاف ہو، اور اسلامی مملکت کے آئین و ضوابط اس کی ممانعت کرتے ہوں۔ اوپر دی گئی چند مثالوں کی روشنی میں خان صاحب "منکر" کے مرتکب ہو رہے تھے۔ ان کا جملہ میرا تخفہ، میری مرضی اس بات کا ثبوت خود ہی فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا نام لینے کی جراّت سب سے پہلے خان صاحب نے خود کی تھی یہ سوچے سمجھے بغیر کے یہ کتنی بڑی بات ہے۔
میرا یہ چیلنج ہے خان صاحب اور خان صاحب کے سب فین کلب کو کہ اب بھی وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" پر قائم ہیں؟"المعروف" پر قائم تھے ہمارے سابق وزیرِاعظم خان لیاقت علی خان جن کے اکاوّنٹ میں ان کی تدفین کے لئے بھی رقم موجود نہیں تھی۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان بتاتی ہیں کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو جو چینی ملتی تھی وہ پندرہ دن بعد ختم ہو جاتی تھی پھر بچوں کو اور مہمانوں کو پھیکی چائے دینی پڑتی تھی۔
ایسا ہونا چاہیے مثالی ریاست کا وزیرِاعظم۔ خان لیاقت علی خان پاکستان بننے سے پہلے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو چھ گاؤں کے مالک تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اپنی جائیداد کے عوض کچھ بھی کلیم نہیں کیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان مزید بتاتی ہیں کہ میں خان صاحب سے پوچھا کرتی تھی کہ آپ نے کبھی اپنا گھر بنانے کا نہیں سوچا تو اس کے جواب میں لیاقت علی خان کہتے کہ میں جب اپنا گھر بنانے کا سوچتا ہوں تو مجھے خیال آتا پاکستان میں کتنے لوگوں کا اپنا گھر ہے، پھر میں اپنا گھر بنانے کے خیال سے رک جاتا ہوں۔ یہ سب کہانی نہیں ہے، حقیقت ہے۔
خان صاحب کو خود اپنی حقیقت بہت اچھی طرح معلوم ہے، اس لئے براہِ مہربانی اب انہیں"امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا نام نہیں لینا چاہیے۔