Kargas Ka Jahan Aur Shaheen Ka Jahan Aur
کرگس کا جہاں اور شاہین کا جہاں اور
روزِ قیامت ہر شخص کا ہر عمل جسے اُس نے دنیا سے چھپایا ہوگا وہ تمام دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائے گا۔ اس وقت وہ جس کیفیت میں ہوگا اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اِسی طرح خان صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے، اُن کے لئے میدانِ حشر اِسی دنیا میں برپا ہوگیا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے پھر بھی اس کا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ یہ حقیقت نہ ہو بلکہ سراب ہو۔
کچھ ایسی ہی کیفیت میری بھی پچھلے دو تین دن سے ہو رہی ہے۔ جب سے میں نے خان صاحب کی نازیبا آڈیوز سنی ہیں۔ کاش ایسا ہو جائے کہ جب صبح آنکھ کھلے تو معلوم ہو کہ یہ سب ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ مجھے یہ بات اس قدر پریشان کر رہی ہے کہ ہم نے پاک وطن ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو کہ بیمار ذہن رکھتا تھا۔ اس شخص کی حقیقت تو آہستہ آہستہ کھلتی چلی آ رہی ہے، جب وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ میں پاکستان پر جوا لگاتا تھا۔ خان صاحب کے اخلاقی معیار اپنے بنائے ہیں۔
وہ تمام نوجوان جو خان صاحب کو پسند کرتے تھے، وہ اخلاق کا کیا معیار قائم کریں گئے؟
خان صاحب بار بار فرماتے تھے کہ ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے اور سوشل میڈیا بہت طاقتور ہتھیار ہے، اپنی سوچ نوجوان طبقے تک پہنچانے کا۔ اب یہی ہتھیار اور آڈیوز اور ویڈیوز خود خان صاحب کو بلندیوں سے اُ ٹھا کر پستیوں میں لے جانے کے لئے کام آئیں گئیں۔ نئی تاریخ رقم ہوگی، شہرت کی بلندیوں سے ناکامیوں تک کا سفر، محبت سے نفرت تک کی منزل، پسندیدگی سے ناپسندیدگی کی طرف قدم۔
ہم نے پاک وطن کے ساتھ کیا کیا؟ یہ سوال مجھے بار بار پریشان کیے دیتا ہے؟
اس گندگی کو سمیٹے ہوئے، نامعلوم کتنا عرصہ لگ جائے؟ کتنے نوجوان خان صاحب کو اپنا آئیڈیل بناتے بناتے اخلاق کی پستیوں میں جا گرے۔ خان صاحب نے ہی قرآن کو مضمون کے طور پر پڑھانا شروع کروایا تھا، لیکن خان صاحب کے خود اپنے دماغ میں بت خانہ تھا تو اس میں نقطہّ توحید کیسے آ سکتا تھا؟ ہم اپنے سکولوں میں قرآن کو مضمون کے طور پر پڑھا رہے ہیں لیکن قرآن نے جس قسم کی تربیت پر زور دیا ہے، اس کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ناظرہ پڑھانے پر زور دیتے چلے آ رہے ہیں۔ سو چنے اور سمجھنے کے دروازے تو ہم نے بند کر دئے ہیں؟
قرآن کا اندازِ تعلیم و تربیت یہ ہے کہ وہ اس قسم کے جرائم کی سزا مقرر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ان مواقع و اسباب کا سدِباب کرتا ہے جو ان جرائم کے ارتکاب کا مؤجب بنتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ چور چوری کرے تو اسے جا پکڑیں۔ وہ ان راستوں پر پہرے بٹھا دیتا ہے، جہاں سے چور کے آنے کا امکان ہو یا یوں سمجھو کہ وہ چور کو نہیں مارتا بلکہ چور کی ماں کو مارتا ہے، تاکہ چور پیدا ہی نہ ہونے پائے۔
انسان کے طبعی تقاضوں کے کئی انداز ہیں۔ ایک تقاضا ہے سانس لینے کا، جس پر زندگی کا دارومدار ہے۔ اس تقاضے کی کیفیت یہ ہے کہ یہ نہ تو اپنے پیدا ہونے کے لئے ہماری نیت یا ارادے کا مختاج ہوتا ہے، آپ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں، بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں، سانس کی آمدورفت از خود جاری رہتی ہے۔
دوسرا تقاضا ہے کھانے پینے کا، یہ بھی تمہارے خیال اور ارادے کا مختاج نہیں۔ جب معدے میں کچھ نہ ہو تو خود بھوک بڑھتی چلی جاتی ہے یہ تقاضا ایک دن کے بچے کا بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا بڑے انسان کا۔ ہم اگر گہرے خیال میں مستغرق ہوں تو ابتداء بھوک کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب اس کی شدد بڑھتی ہے تو ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ جذبہ تمہارے خیال اور ارادے کے بغیر پیدا ہوتا ہے۔
اب سوال تیسرے تقاضے کا ہے، اس موضوع پر لکھنا بےحد مشکل ہے، کیونکہ مشرقی معاشرہ میں اس موضوع کا ذکر انتہائی مشکل ہے، لیکن اس وقت میرے سامنے وہ تمام نوجوان ہیں، جن کا آئیڈیل خان صاحب ہیں اور وہ سب خان صاحب کی آڈیوز سن رہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کا ٹول اب بچے بچے کی پہنچ میں ہے۔
تیسرا تقاضا ہے جنسی تقاضا، یہ تقاضا سانس لینے اور کھانے پینے کے تقاضے کی طرح از خود پیدا نہیں ہوتا۔ اسے بیدار کرنے کے لئے خیال اور ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے کام میں ایسے منہمک رہے کہ اسے دنیا جہاں کی کچھ خبر نہیں تو اس حالت میں سانس کا عمل از خود جاری رہے گا اور بھوک بھی از خود لگے گی اور اگر وہ شروع میں اس کی طرف توجہ نہیں دے گا تو کچھ وقت کے بعد وہ اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا کے چھین لے گی۔
لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ اس جذب و انہماک میں جنسی تقاضا بھی از خود اُبھر آئے، اور اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اس تقاضے کے ابھرنے کا دارومدار خیال و ارادے پر ہے، لہٰذا تخفظِ عصمت کے لئے قرآن کہتا یہ ہے کہ وہ ایسے مواقع پیدا نہیں ہونے دیتا جو انسانی خیال کو آلودہ کریں۔ خان صاحب نے جب قرآن کے نصاب کو سکولوں میں لازم قرار دیا تو میں بہت خوش ہوئی لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ خان صاحب اس وقت صرف لفاظی کر رہے ہیں، اور وہ خود کرگس کے جہاں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، وہ زبان سے الفاظ تو کچھ ادا کرتے ہیں لیکن ذہن میں کیا کچھ غلاظت ہے۔
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اِسی اِیک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور۔