1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Kamyabi Ka Raaz

Kamyabi Ka Raaz

کامیابی کا راز

میں کچھ دن پہلے خبریں پڑھتے ہوئے، ایک خبر پڑھتے ہوئے، ایک خبر پر رک گئی اور اُس دن سے سوچ رہی تھی، کہ واقعی 20سال کے دوران جدید ہتھیار وں کی موجود گی میں امریکہ اور اس کے اتحاد یوں کو شکست ہوئی۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی اردو کالمز کے صفحہ پر لکھ چکی ہوں کہ "ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا "لیکن آج خبر کچھ یوں تھی، کہ افغانستان میں 20 سال کے دوران اربوں ڈالرز اور جدید ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست کی تحقیقات کے لئے، امریکی کانگریس کے اراکین پر مشتمل کمیشن قائم کر دیا گیا ہے۔ قائم کردہ کمیشن 768 ارب ڈالر کے سا لانہ دفاعی بجٹ کا حصہ ہے، جسے ایوان ِنمائندگان کے بعد امریکی سینٹ نے بھی منظور کیا۔

افغانستان پر بنایا جانے والا کمیشن 16 ارکان پر مشتمل ہو گا۔ دونو ں بڑی جما عتوں ڈیمو کریٹک پارٹی اور ری پپبلکن پارٹی کی طرف سے، نامزد کیے جانے والے ارکان کو ایک سال کے اندر طالبان کی فتح کی ابتدائی، اور تین سال کے اندر مکمل وجوہات کا پتہ چلانا ہو گا۔ وہ تین سال یا ابتدائی سال میں کیا پتہ چلائیں گئے، مجھے حضرت عمر کے وہ الفاظ یاد آ گئے، جس میں وہ کامیابی کا راز بتاتے ہیں۔"میں تمھیں اور تمھارے لشکروں کو حکم دیتا ہوں کہ وہ ہر حا ل میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ کیونکہ دشمن کے مقا بلے کے لئے سب سے زیادہ موثر ہتھیار اور سب سے زیادہ کا میاب تد بیر، خو فِ خدا ہے۔ احکامِ خدا وندی کی خلاف ورزی سے بچنا۔ میں تم سب کو حکم دیتا ہوں، کہ تم اپنے دشمن کی نسبت اخلاقی خرابیوں سے زیادہ بچو، کیونکہ اہلِ لشکر کی اپنی اخلاقی خرابیاں ان کے خق میں دشمنوں کے حملوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتیں ہیں۔

مسلما نو ں کی فتح صرف اس لئے ہوتی ہے، کہ دشمن کے اخلاق ان سے زیادہ پست ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہو تو مسلمان کبھی ان کا مقا بلہ نہ کر سکیں۔ اس لئے کہ نہ ہماری فوج تعداد میں ان کی فوج کے برابر ہے، نہ سا زو سامان میں، لہٰذا اگر گنا ہگا ری، یعنی بد اخلاقی اور بد کرداری میں ہم اور وہ ایک سطح پر ہوئے تو پھر وہ کون سی چیز ہو گِی، جس کے بل بو تے پر ہم ان پر غا لب آسکیں گئے۔ اگر ہم حسنِ سیرت میں ان سے آگے ہو نگے تو ہم ان پر فتح حاصل کر سکیں گے۔ تمھیں معلو م ہو نا چا ئیے کہ تمھا رے اوپر کرا ماََ کا تبین مقرر ہیں۔ جو تمھا ری ہر بات کو جانتے ہیں۔ ان سے شرما و، (اور اس طرح ظاہر اور با طن، ہر بد اخلاقی اور معصیت سے بچو) کبھی خیال نہ کرو کہ ہم برے ہی سہی لیکن دشمن ہم سے زیادہ بُرا ہے۔

اس لئے خدا کبھی یہ نہیں کرے گا، کہ خواہ ہم برائی ہی کیوں نہ کرتے رہیں، وہ ہم پر مسلط ہو جائیں۔ با بل کا بخت نصر، بنی اسرائیل پر کس طرح مسلط ہو گیا۔ حا لا نکہ بنی اسرائیل بہر حا ل خدا کو مانتے تھے اور اہلِ با بل کا فر و مشرک تھے۔ لہٰذا اپنا اور دشمن کا مقا بلہ برا ئیوں کے پیما نے سے نہیں، اچھا یوں کے پیمانے سے کرو۔ اسی میں کا میا بی کا راز ہے"۔ مقو قس نے اپنے ایلچی حضرت عمرو بن عاص رظہ کے پا س بھیجے، جو مصر میں جیو شِ اسلا میہ کے سپہ سا لا ر تھے۔ تو وہ دو دن تک وہاں رُکے رہے۔ مقو قس کو اندیشہ لا حق ہوا کہ عربوں نے کہیں ان ایلچیوں کو قتل نہ کر دیا ہو، جب وہ واپس آئے تو معلو م ہوا، کہ حضرت عمرو بن عا ص رظہ نے انہیں اس مقصد کیلئے روک لیا تھا کہ وہ مسلمان فو جیوں کا بنظرِ خو یش مشا ہدہ اور بنگاہِ غائر مطا لعہ کر سکیں، ان ایلچیوں کے رئیس نے مقو قس سے کہا کہ:

"ہم نے ایک ایسی قو م کو دیکھا ہے۔ جن کا ہر فرد، زندگی سے زیادہ موت، غرور و نخوت سے زیادہ خاکسا ری پر جا ن دیتا ہے۔ ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو دنیا سے کوئی غرض یا دلچسپی رکھتا ہو، وہ زمین پر بیٹھتے ہیں۔ گھٹنوں پر رکھ کر کھا تے ہیں۔ ان کا امیر گویا انہیں کا ایک فرد ہے۔ ان میں شریف اور کمینے، آقا اور غلا م کا کوئی فرق نہیں۔ ان میں کا مل مسا وات ہےاور اس کا عملی مظاہرہ نماز کے وقت ہو تا ہے، جب سب ایک طرح وضو کرتے اور ساتھ مل کر نہایت خضو ع و خشو ع سے اپنے رب کے حضور جھک جاتے، مسلمان لشکر یوں کے یہ اوصاف سن کر مقو قس سو چ میں پڑھ گیا۔ اس کے بعد اس نے سر اُٹھا کر اپنے سا تھیوں سے کہا کہ

"قسم اس زات کی جس کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ یہ لوگ چائیں تو پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔"

اور تستر (ایران کے گورنر) ہرمزان نے اس تمام تفصیل کو سمٹ کر ایک فقرہ میں سمو دیا تھا۔ جب وہ فتح ایران کے بعد گرفتار ہو کر مدینہ آیا تھا۔ ہیکل نے اس کی آمد کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ وہ مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے دیبا کی زرکار پو شاک زیب تن کی، موتیوں اور جواہرت سے مرصع تاج سر پر رکھا، خا لص سو نے کا عصا ئے شاہی جس میں مو تیوں اور یاقوت جڑے ہوئے تھے، ہاتھ میں لئے "مسلما نوں کے با دشاہ " حضرت عمر رظہ کی ملاقات کے لئے چلا، اس نے خیال کیا کہ حضرت عمر رظہ پہرے داروں کی حفاظت میں، رونق افروز ایوانِ شاہی ہوں گے، ایوان کے دروازہ پر حا جب و دربان مقرر ہونگے۔

حضرت انس بن مالک اخنف بن قیس نے جو ہرمزان کو ساتھ لائے تھے، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر مسجد میں ہیں، ہرمزان مسجد میں پہنچا تو اس نے دیکھا، کہ وہاں کچھ لوگ بیٹھے چپکے چپکے با تیں کر رہے ہیں اور ایک طرف ایک شحص چغہ سرہا نے رکھے سو رہا ہے۔ ہرمزان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ "شہنشاہِ عمر کہاں ہیں؟ " انہوں نے اس سونے والے شخص کی طرف اشا رہ کر کے بتا یا کہ وہ ہیں، تو وہ ورطہٰ حیرت میں ڈوب گیا، وہ اسے باور کر نے کے لئے تیا ر ہی نہ تھا، کہ عرب و عجم کا شہنشاہ یوں فرشِ حا ک پر محوِ استراحت ہو۔ جب اسے یقین دلایا گیا کہ حضرت عمر وہی ہیں تو اس نے بے سا ختہ کہا کہ "اس شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے اور اگر یہ پیغمبر نہیں تو اس کا عمل ضرور پیغمبروں کا سا ہے"۔

نیند سے بیدار ہونے پر حضرت عمر نے ہرمزان کو دیکھا، تو آپ نے اس سے پہلا سوال یہ کیا کہ ہرمزان! یہ بتا و کہ اس سے پہلے تم ایرانی، ہم لوگوں کے ہا تھوں اس قدر زلت آمیز شکست کھائی، اس نے جواب دیا، اور یہی وہ جواب ہے، جس تک پہنچنے کےلئے ہم نے یہ ابتدائی گفتگو کی ہے۔ اس نے کہا "عمر! بات یہ ہے کہ ایامِ جہالت میں ہم اور تم اکیلے ایک دوسرے سے نپٹتے تھے، اس لئے ہم ہمیشہ تم پر غالب آتے تھے۔ لیکن اب صورت یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت، ہم اکیلے ہوتے ہیں اور تمھا رے ساتھ تمھا را خدا ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم تم دونوں کا مقابلہ کر سکیں۔"ایک ایرانی نہیں جب، خدا ان کے ساتھ رہا، دنیا کا کوئی ملک بھی مسلمانوں کا مقا بلہ نہیں کر سکا"۔

اگر ہم مسلمان آج بھی وہی والے مسلمان ہوتے تو امریکہ کی شکست اور افغا نیوں کی فتح کے لئے 20سال نہیں 20 ماہ درکار ہوتے۔

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla