Jo Bote Hain Wohi Kat-te Hain
جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں
نوعِ انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے دور میں جب انسانوں کے مفاد میں باہمی تصادم نہیں ہوا تھا، سب ایک برادری کی شکل میں رہتے تھے۔ اس کے بعد انفرادی مفاد پرستیوں میں ان میں اختلاف پیدا کر دئیے اور ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے، پھر خدا نے پیغمبر بھیجنا شروع کئے ہر قوم، ہر علاقے حتیٰ کہ قریہ قریہ ایک لاکھ چو بیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے۔
جو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے، سب کا ایک مقصد تھا، انسانوں کے اختلافات مٹا کر عالمگیر برادری بنانا، ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا حج کا مقصود بھی یہی تھا، لیکن پھر کیا ہوا؟ انسانوں نے دیواریں بنا لیں ہم اُمتِ محمدیہ کا یہ فرض تھا کہ انسانوں کے اختلافات مٹا کر ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے کرتے، کیونکہ پاکستان کواسلامی سٹیٹ بنا تھی۔
لیکن ہم دنیا کو کیا تماشا دیکھا رہے ہیں، کبھی مسجدِ نبوی جیسی بابرکت جگہ پر کبھی پارلیمنٹ کے لاؤنجیز میں اور اب لندن میں، میرا اشارہ مریم اورنگ زیب کے ساتھ بدتمیزی والے واقعات سے ہے۔ مریم صاحبہ میاں صاحب کی بلائی گئی میٹنگ سے فارغ ہو کر واک کرتی ہوئی اپنے کزن کے گھر جا رہی تھیں، جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھی تو خان صاحب کے تربیت یافتہ کارکن جنھوں نے مریم کے ساتھ عجیب وغریب زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔
وہ کارکن مریم کے پیچھے پیچھے آوازیں کستے ہوئے جا رہے تھے۔ مریم صاحبہ کیفے میں داخل ہو گئیں، جہاں یہ کارکن بھی پیچھے پیچھے کیفے میں داخل ہو گئے اور بد تہزیبی جاری رکھی، کیفے کے مالک نے مریم صاحبہ سے مدد کے لئے پوچھا، تو انھوں نے کوئی بھی مدد لینے سے انکار کر دیا، وہ باآسانی پولیس کو بلا سکتی تھیں، کیونکہ وہاں کے قانون کے مطابق کسی کی property میں داخل ہو کر اس طرح کی حرکتیں قانونی طور پر جرم ہے۔
مریم کے بقول بعد میں کیا ہوتا، جو مسجدِ نبوی میں ہوا اور ان میں ملوث افراد کو جو سزائیں دی گئیں بعد میں ان غریب لوگوں کا کوئی والی وارث نہیں بنا، مریم نے جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ مریم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے ساتھ تین دفعہ اس قسم کے واقعات ہو چکے ہیں، کیا آپ نہیں سمجھتی کہ آپ کو کوئی گارڈز رکھنا چاہیے تو انھوں نے جواب ریا کہ میرا صبر ہی میرا گارڈ ہے۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ ان لوگوں نے واقعی لوٹ مار کی ہے تو کیا یہ لوٹ مار ثابت ہوئی، بغیر ثبوت کے دنیا کا کوئی قانون آپ کو مجرم نہیں ٹھراتا کہ آپ بیچ سڑک کے عدالت کھول کر بیٹھ جائیں، کسی خاتون کو یوں سرِ بازار رسوا کیا جائے، جتنے خان صاحب کے چاہنے والے ہیں اتنے ہی شاید دوسری پارٹیوں کے بھی ہیں، اگر خان صاحب کو اس قسم کی آوازیں لگنا شروع ہو جائیں۔
جیسا گھڑی چور جس کی اطلاع بھی ہمیں تحفہ دینے والوں کی جانب سے ملی جس کا انھوں نے برا منایا اور پاکستان اس سکینڈل کی وجہ سے دنیا بھر میں رسوا ہوا، خان صاحب کا کارنامہ ان کی اپنی بیٹی اور بہت سے دوسرے کارنامے روڈا پروجیکٹ پنجاب کرپشن اور جو کارنامے ثابت ہو جاتے ہیں، اس پھر خان صاحب کہتے ہیں (میرا تخفہ، میری مرضی) ہیرے کی انگوٹھی پر تو اطلاع دینے والے کو اپنی پوسٹ سے ہٹا دیا گیا۔
اگر باقی سب لوگ ان سکینڈلز کا ذکر کر کے نعرہ بازی شروع کر دیں، جو بالکل بھی مشکل نہیں تو پھر خان صاحب کا کیا بنے گا؟ خان صاحب کو شاید بھا گنے کی جگہ نہ ملے، ہر چیز کی حد ہوتی ہے، خدا کے واسطے ہمارے نو جوانوں کے اخلاق کو اتنا مت گرا دیں کہ ان کو سنبھلتے سنبھلتے ایک صدی گزر جائے، ہمارے نبی ﷺ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے لئے مثال ہیں، جن کی گواہی غیر مسلم مورخ بھی دیتے ہیں۔
فتح مکہ کے وقت دیکھیں سامنے کون کھڑا ہے؟ یہ ہیں عثمان ابنِ طلحہ شیبی، جن کے پاس کعبہ کی کلید رہتی تھی، ہجرت کے وقت حضور ﷺ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ذرا کعبہ کا دروازہ کھول دو تو میں اس کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو تسکین دے لوں، اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا، آپ خاموشی سے واپس آگئے۔ لیکن اتنا کہا کہ خیر، آج تم میری خاطر دروازہ کھولنے کے لئے تیار نہیں ہو تم مختار ہو۔
لیکن وہ وقت بھی آنے والا ہے، یہی کنجی میں جس کے ہاتھ میں دے دوں گا، قیامت تک اس سے کوئی چھین نہیں سکے گا۔ آج کعبہ کی وہی کنجی آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی اور وہی عثمان سامنے کھڑا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا، تمھیں وہ واقعہ یاد ہے اُسے یاد تھا، سب کی نگاہیں منتظر تھیں کہ دیکھیں کہ یہ کنجی کس کے ہاتھ میں دی جائے گئی، اللہ اکبر! اس نوازش کی نظیر اور کہاں مل سکتی ہے یہ کنجی اسی عثمان کو دے دی گئی، کنجی آج تک اِسی عثمان کی اولاد میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
یہ ہے ہماری تاریخ اور ہم دنیا کو کیا دیکھا رہے ہیں۔ ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، خان صاحب اپنے لئے اتنے کانٹے بوتے جا رہے ہیں وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ یہ کانٹے کیسے کاٹیں گئے۔