Jang e Badar Aur Do Qaumi Nazriya
جنگِ بدر اور دو قومی نظریہ
آج سترہ رمضان ہے، جس دن حق و باطل کا پہلا معرکہ ہوا۔ پہلا رمضان جب روزے فرض ہوئے، ابھی سترہ روزے ہی رکھے تھے کہ 17 رمضان 2 ہجری (مطابق 13 مارچ 624) کی صبح بدر کے میدان میں دو صفیں ایک دوسرے کے سا منے نبرد آزما تھیں۔
خان صاحب نے جہاد کا لفظ تواتر سے استعمال کیا ہے۔ زندگی نام ہے جہدِ مسلسل اور سعی پیہم کا! جب یہ کوشش حق کی حمایت کے لئے کی جائے تو اسے "جہاد" کہا جاتا ہے، لیکن یہ فیصلہ کرنا قطعاََ مشکل نہیں ہے کہ آپ کو معلوم ہی نہ ہو سکے کہ کون سی جدو جہد حق کے لئے ہے اور کون سی باطل کے لئے!
دو قومی نظریہ جس کی بناء ہر پا کستان معرضِ وجود میں آیا وہ یہ تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور اسلامی اُصولوں کو آزمانے کے لئے انھیں الگ ملک کی ضرورت ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ حق پر مبنی تھا اور اس کے لئے جدوجہد کرنے والے "جہاد" کر رہے تھے اور اس کی مخالفت کرنے والے باطل پر تھے خواہ وہ ہمارے اپنے علماء کرام ہی کیوں نہ ہوں!
دو قومی نظریہ کا عملی مظاہرہ اُس وقت سے دنیا میں دیکھنے میں آتا رہا جب ہر نبی حق کی آواز لے کر میدان میں آتا اور اسیے اپنے خونی رشتوں تک سے نبرد آزما ہونا پڑتا، لیکن بدر کے میدان میں انسان کی آنکھ نے جو مبظر دیکھا، تاریخ کے اوراق آج تک اُس کو بھلا نہیں پائے۔
ایک طرف حضرت ابو بکر تھے تو دوسری طرف مقابلہ میں ان کا بیٹا حضرت خزیفہ اور ان کا باپ عتبہ، ادھر حضرت عمر تھے تو اُدھر آپ کے ماموں اور ایک طرف حضرت علی تھے اور مخالف صف میں ان کے بھائی عقیل اور آگے بڑھیے ادھر خود محمد ﷺ تھے تو سامنے صف میں آپﷺ حقیقی چچا حضرت عباس اور آپ کے داماد ابو العاص ادھر اُم المو منین حضرت سودہؓ تھیں تو سامنے ان کے عزیز سہیل بن عمر۔
حبش کا رہنے والا بلال اپنوں میں سے اور روم کا صہیب یگانہ تھا لیکن حقیقی بیٹا بیگانہ۔
یہ تھا دو قو می نظریہ!
ارے یہ کیا ہوا؟ چودہ سو سال بعد ایک مردِ مجاہد ہندوستان سے اُٹھتا ہے اور سوئی ہوئی قوم کو پھر سے اس نظریہ کی یاد دلاتا ہے اور ایک اور مردِ مومن واقعی اس نظریہ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں الگ ملک بھی لے کر دے دیتا ہے!
اور پھر ہم پر 65 کی جنگ مسلط کر دی جاتی ہے کہ اس ننھی سی کمزور مملکت کو ختم کر دیا جائے۔ اُس وقت تو ہم اللہ کے نام پر حاصل کی گئی مملکت کو بچا لیتے ہیں لیکن دشمن اپنے کام میں لگا دہتا ہے اور ہماری کو ہتایاں کیونکہ 65 کی جنگ میں ہم نے افسانے مشہور کر رکھے تھے کہ سبز عماموں والے ہما ری مدد کو آتے ہیں۔ ایسے قصے لکھتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ خدا ہماری مدد اُس وقت کرتا ہے جب ہم میں قوتِ ایمانی موجود ہو اور جب قوِ ت ایمانی میں ہلکا سا بھی جھول آجائے تو جنگ حنین کو یاد کر لیا جائے جب صحابہؓ کی بارہ ہزار مسلح فوج ہر قسم کے سازو سامان سے آ راستہ۔
اس دبدبہ اور طنطنہ سے صفِ آراء ہوئیں کہ بعض صحابہؓ کی زبان پر بے اختیار آ گیا کہ آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے؟ اس وقت کیا ہوا؟ اُس وقت خدا نے ہماری مدد کیوں نہ کی؟ بارہ ہزار کے لشکر کا کچھ پتا ہی نہ تھا کہ کہاں تتر بتر ہوگیا۔ چاروں طرف تیروں کی بارش یو رہی تھی ہر طرف سے شکست نظر آ رہی تھی۔ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی تھی جنھوں نے پھر سے فوج کو ایک مقام پر اکھٹا کر لیا!
خدا کی نصرت قوتِ ایمانی کے ساتھ ہی ہوا کرتی ہے جو جنگِ بدر میں صرف 313 کی فوج کے ساتھ تھی۔ 65 کی جنگ میں تو سبز عماموں والے تھے لیکن 71 کی جنگ میں کہاں چلے گئے؟
اندرا گاندھی کا وہ جملہ یاد کرواتی چلوں جو اُس نے 71 کی جنگ میں ہماری شکست کے بعد کہا تھا "یہ اس نظریہ کی شکست ہے جو باطل پر مبنی تھا"۔
ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے اُس نے ہمارے نظریہ کو باطل ٹابت کر دیا ' اور ہم اب تک اس نظریہ کو "حق" ٹابت نہیں کر سکے!