Hunza Ki Sair
ہنزہ کی سیر

اللہ نے ہمیں کہا کہ زمین میں چلیں پھریں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں اتنی خوبصورت کائنات اور وہ قومیں جو پہلے گزر چکی ہیں ان کی تہزیب و تمدن اور کس کس قوم نے کون سا نظام اختیار کیا اور اس کا انجام کیا ہوا؟ ہمیں "سیرو فی الا رض" کی تلقین کی گئی ہے۔
قرآن کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے نا ہی وہ تاریخ کی داستانیں دہراتا ہے، بلکے وہ ہمیں بار بار بتاتا ہے اس کائنات کی خوبصورتی اور اس کا نظام اور جو جو قومیں گزر چکی ہیں اور انھوں نے کس قسم کا نظام اپنایا تھا اور ان کا انجام کیا ہوا؟
سیاحت، زمین میں چلنا پھرنا اور اس کی خوبصورتی کو دیکھنا، ابن بطوطا ہو یا مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے ہوں، جگہوں کی خوبصورتی کو قلم بند کرنا ہو چاہے کیمرے کی آنکھ سے چاہے قلم سے۔ لیکن جو قدرت کا حسن آپ کی اپنی آنکھ دیکھ سکتی ہے اس کا احاطہ کوئی کیمرہ اور کوئی قلم نہیں کر سکتا۔
میں پچھلے دنوں ہنزہ گئی، رات ایک بجے لاہور سے روانا ہوئے اور صبح اڑھائی بجے کے قریب ہم ناران پہنچے جو اس قدر خوبصورت ہے، یہاں بہتے ہوئے خوبصورت چشمے اور پہاڑ اور خدا کے واٹر سسٹم کا مقابلہ کیا کوئی دوسرا واٹر سسٹم کر سکتا ہے؟
ہم رک رک کر چشموں کا تھنڈا پانی پیتے رہے یہ چشمے کا پانی جو مزہ دیتا ہے اس کا کوئی منرل واٹر مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ہم اس سے پہلے بھی ناران جا چکے ہیں لیکن اس مقام پر میں عمیر بھائی کا ذکر نہ کروں یہ تو ممکن نہیں۔ اس سیر کے مزے نے عمیر بھائی کی موجودگی کو دگنا کر دیا، بلکے یہ سفر ان کی موجودگی کے باعث ہی ممکن ہو سکا، ہم نے آ گے خنجراب پاس تک جانا تھا، جس کا فاصلہ لاہور سے 1300 کلو میٹر تک ہے۔ ناران ایک رات رکنے کے بعد ہم صبح ہنزہ کے لئے روانا ہوئے، ہنزہ رات کو 9 بجے پہنچے اس دن موسم ناران کی نسبت کم ٹھڈا تھا، لیکن ہنزہ کے لوگ بےحد مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں، وہ راستے میں گزرتے ہوئے سلام کرتے ہیں اور اپنی صفائی اور ہر کام خود کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان میں بہت سی خصوصیات ہیں، آپ صبح اگر باہر نکلیں تو یہ لوگ اپنے گھروں، ہوٹلوں اور دکانوں کی صفائی خود کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کاش ہم دین کی اصلی شکل ان کے سامنے پیش کر سکتے، لیکن ہم ایسا کیونکر کر سکتے ہیں ہم تو خود اسلام سے دور ہیں۔
ہماری اگلی منظر خنجراب پاس ہے لیکن شدید تھکاوٹ کی وجہ سے ہم اس سے اگلے دن عطاآباد اور بوریت لیک گئے اور اس سے اگلے دن خنجراب پاس جانے کا فیصلہ کیا۔
ہم جس ہوٹل میں ٹھرے ہوئے تھے وہاں خوبانی، آلو بخارا اور چیری کے درخت تھے ہم تین دن قیام کے دوران تازہ خوبانیاں آلو بخارا توڑ توڑ کر کھاتے رہے، یہی جنت ہے کہ ہر چیز انسان کی دسترس میں ہو۔ لیکن انسانوں نے جنت اپنے آپ سے دور کر دی ہے۔
قدرے تازہ دم ہونے کے بعد ہم خنجراب پاس کے لئے روانا ہوئے، وہاں ہمارے چینی دوست ہمیں ہاتھ ہلا رہے تھے اور ہم ان کو جواب دے رہے تھے۔
اس وقت درجہ حرارت 2 تھا لیکن مجھے ٹھنڈ کا احساس تو تھا پر میرا خیال تھا کہ درجہ حرارت 5 یا 6 کے قریب ہے اس لئے سردی کی شدت کے باوجود احساس زیادہ نہ ہو سکا وہ تو جب بعد میں معلوم ہوا تو حیرت ہوئی، کیونکہ ابو کے لئے وہاں ایک گھنٹہ رکنا بہت صبر آزما تھا، آکسیجن لیول بھی کم تھا کیونکہ اس وقت ہم 4693 میٹر کی حیران کن بلندی پر تھے۔
اس وقت ہم پاکستان کے آخری شہر "سست" سے گزرے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سے گزرتے ہوئے سب لوگ گاڑی میں سو رہے ہوتے ہیں وجہ شاید آکسیجن کی کمی ہے۔
اس کے بعد تقریباََ رات تک ہم ہوٹل پہنچے اور صبح پھر ناران کے لئے روانا ہوئے اور رات گئے تک ناران پہنچے اور تمام راستے درخت سے توڑے گئے پھلوں سے لطف اندوز ہوتے رہے اور یہ سلسلہ لاہور تک برقرار رہا اور اگلے دن صبح ہی لاہور کے لئے روانا ہوئے اور رات بارہ بجے لاہور پہنچے، سفر سفر ہی ہوتا ہے پہلے زمانے میں اونٹوں پر مہینوں لگ جاتے تھے سفر طے کرتے کرتے اب ان کی جگہ گاڑیوں اور جہازوں نے لے لی، لیکن وقت کے لحاظ سے سفر کی مشکلات بہرحال ہوتی ہیں اور اگر آپ کا راہنما عمیر بھائی جیسا ہو تو سفر اور سیر دونوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
عربوں کے ہاں قافلے چلتے تھے، اونٹوں کے اوپر سواری ہوتی تھی اونٹ کا ایک کجاوہ ہوتا ہے، دائیں بائیں دو سواریاں بیٹھتی ہیں، اب یہ جو میر کارواں ہوتا تھا اسے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہوتا تھا، وہاں ماہر موجود ہوتے تھے جو اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ اونٹ پر دو سواریاں اس قسم کی بٹھائی جائیں کہ ان میں پہلی چیز تو یہ ہو کہ وہ ہم وزن ہوں، اس کا توازن برقرار رہے، اس کے برعکس اگر ایک بڑا سا پہلوان بٹھا دیں تو آپ سوچیں کہ اونٹ کا حشر کیا ہوگا، ان سواریوں کی کیا کیفیت ہوگئی، یہ چل ہی نہیں سکیں گئے، یہ تو ایک Physical سی چیز ہے۔ یہ سفر مہینوں کا ہوتا ہے، دوسری چیز یہ ہوتی تھی کہ میر کارواں دیکھتا تھا کہ دو سواریوں کے ہم وزن ہونے کے ساتھ ساتھ مزاج اور زوق میں بھی ہم آہنگی ہو، اس لئے وہ رفقاء کا انتحاب ایسے کرتا تھا کہ دو رفقاء ہم آہنگ ہوں۔
عرب ان دو افراد کو ایک دوسرے کا زمیل کہتے تھے اور اس طرح سواریوں کو تیار کرکے بٹھانے والے کو "مزمل" کہتے تھے۔ وہ عرب آج بھی ان رفیقوں کو "زمیل" کہہتے ہیں اور اس عمل کو "تزمل" اور اس طرح جماعت تیار کرنے والے کو "مزمل" کہتے ہیں۔
آج کل کے دور میں یہ صلاحیت عمیر صاحب میں ہے کہ وہ تمام مسافروں میں توازن برقرار رکھنے میں ہر لخاظ سے اہم کردار ادا کرتے ئیں وہ آج کے دور کے "مزمل" ہیں۔

