Hamari Ye Be Reham Siasat
ہماری یہ بے رحم سیاست
اللہ نے کہا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچایا، کیونکہ ہمارے دین کے نزدیک ہر انسان قابلِ احترام ہے۔ سیاست میں بے شمار قتل ہوئے۔ ہماری پاکستانی تاریخ میں لیاقت علی خان کی شہادت، پھر بےنظیر کا قتل اور جنرل ضیاءالحق کی موت، کسی بھی قتل کا سراغ نہیں مل سکا۔
ہم نے دین کو سیاست سے الگ کر کے اپنا بہت بڑا نقصان کیا ہے اور جس کسی نے بھی سیاست کے تانے بانے مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اس کا مطلب یہی تھا کہ عوام کو قابو کرنے کے لئے مذہب کا ٹچ دیا جائے۔ مذہب کا صرف ٹچ دے دے کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ ایک ماہرِ سیاست دان نے کہا تھا کہ نیک سیرت انسان کبھی اپنی سلطنت کو نہیں بچا سکتا کیونکہ سلطنت کو بچانے کے لئے جس حد تک جانا ضروری ہوتا ہے اس حد تک نیک سیرت بندہ نہیں جا سکتا۔
ارشد شریف قتل کیس کی عجیب عجیب کڑیاں سامنے آ رہی ہیں۔ خدا معلوم باقی قتل کی وارداتوں کی طرح اس کا بھی سراغ مل پاتا ہے یا نہیں؟ لیکن مجھے اتفاق سے جہانِ حیرت پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ سردار محمد چودھری کی خود نوشت ہے۔ اس میں تمام سیاست دانوں کے ایسے ایسے واقعات درج ہیں کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ سوسائٹی میں ایک طبقہ تو عوام کا ہوتا ہے اور دوسرا لیڈروں یعنی خواص کی قوت عوام میں ہوتی ہے۔
لیکن ان کی قوت کی ڈور لیڈروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ لیڈر اپنی ہوشیاری سے عوام کو اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔ اور جو لیڈر اس فن میں زیادہ ماہر ہوتا ہے وہ اقتدار کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے، عوام کے جزبات کو طرح طرح سے بھڑکایا جاتا ہے اور کرپشن کا ڈرامہ صرف اب ہی نہیں رچایا جاتا رہا بلکہ کافی پہلے سے یہ کچھ کیا جاتا رہا ہے۔ یخییٰ خان کے دور میں 303 افسران کو کرپشن کے الزام میں بر طرف کر دیا گیا۔ واضح ثبوتوں کے بغیر۔
بھٹو دور میں 1300 افسروں کی برطرفی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس وقت بھٹو تاریخ کے واحد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ مصطفیٰ کھر نے کہا "ہم نے عوام سے وعدہ کیا تھا کرپٹ افسروں کے خلاف کاروائی کریں گے"۔ اس کے بعد ان 1300 افسروں کو جبری طور پر گھر بھیج دیا گیا، ان میں وہ افسران بھی شامل تھے جو پہلے ہی ریٹائر ہو چکے تھے بلکہ ان میں بعض قبروں میں ابدی نیند سو رہے تھے۔
ان افسران میں جہانِ حیرت کے مصنف سردار محمد چودھری کے سابق باس ڈی آئی جی قاضی محمد اعظم بھی شامل تھے جو ایک دیانتدار پولیس افسر تھے۔ ایوب خان نے 100 افسر، بھٹو نے 1300 افسروں کی چھٹی کی اور پاکستان میں کرپشن نے اسی نسبت سے فروغ پایا، اس لئے کہ اب ہمارے پاس قائدِاعظم جیسا لیڈر نہیں تھا جن کے لئے جرابوں کا جوڑا منگوایا گیا جس کی مالیت دو روپے تھی۔
جب قائدِاعظم کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان جیسا غریب ملک اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور جرابوں کی قیمت ان کے اکاؤنٹ سے ادا کر دی گئی۔ بعد میں کرپشن کرپشن کا راگ الاپ کر اپنی حکومتیں پکی کی جاتی رہیں۔ طاقت کے نشے میں کیا کیا ہوتا رہا، وزیرِاعظم بھٹو نے 1972 میں غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں لاڑکانہ میں ایک تقریب منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔
سپیشل برانچ کے ڈی آئی جی سردار وکیل خان سے کہا گیا کہ ممتاز کو جو اس دور کی ایک مقبول رقاصہ اور اداکارہ تھی، کو اپنے حسن کا جادو جگانے اور رقص کے جلوے دکھانے کے لئے لاڑکانہ بھیجو۔ چودھری عبدالغفور ایس پی سٹی کو ذمہ داری سونپ دی گئی، ممتاز فلموں کی شوٹنگ میں مصروف تھی اس نے جانے سے انکار کیا، اس کی ماں کو گرفتار کر لیا گیا، اس پر انقلابی شاعر حبیب جالب نے نظم لکھ ڈالی، لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو۔
اس سے آگے چلتے چلے جائیں۔ راجیو گاندھی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچے تو بےنظیر نے ان کی حد سے زیادہ ناز برداری کی۔ کشمیر ہاؤس کے بورڈ بھی سڑک پر سے ہٹوا دئے گئے۔ اس سے بھی زیادہ افسوک ناک موقع وہ تھا جب راولپنڈی ائیرپورٹ پر مشترکہ نیوز کانفرنس میں راجیو گاندھی کے منہ سے یہ سننا پڑا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور برابر میں بیٹھی ہوئی بےنظیر صرف مسکرا کر معاملہ کو نظر انداز کر گئیں۔
یہ سب کچھ اب تک جاری ہے۔ تھوڑا سا ماضی یاد کروانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے سیاستدان بعض اوقات اتنے سفاک ہو جاتے ہیں کہ اپنی point scoring کے لئے اپنے ساتھ مخلص لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، ارشد شریف کی موت کا معمہ شاید اس دفعہ حل ہو جائے۔ ارشد شریف PTI کے لئے پر خلوص طریقے سے کام کرتے رہے، آپ کو نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، کیونکہ اختلافِ رائے ہر ایک کا حق ہے لیکن اپنے ہی پرخلوص اینکر کے ساتھ کیا کیا گیا؟
میں اس وقت ان کی بات نہیں کر رہی جو دنیا کر رہی ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کیا ارشد شریف کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ خان صاحب اور تمام پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اس کے جنازے میں شرکت کرتی، خان صاحب کو ان کی پیرنی کی طرف سے ہدایات ہیں کہ آپ نے کسی بھی ایسے جنازے میں شرکت نہیں کرنی جہاں میت موجود ہو، غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کی خیر ہے۔ اب یہ بات ان سب کے سوچنے کی ہے جو سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے ہیں۔
ہائے رے! یہ بے رحیم سیاست۔
کاش ہمارے سیاستدان حضرت عمر کے وہ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھیں جو انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے باوجود کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنی حالت ہر وقت اس پرندہ کی مانند دیکھائی دیتی ہے جس کے اردگرد ہر طرف جال ہی جال ہوں"۔
ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے والوں کی یہ حالت ہوتی ہے اور دوسری طرف ہماری یہ بے رحم سیاست۔