Hai Tawaf o Hajj Ka Hangama Agar Baqi To Kya?
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا؟

حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی، دیکھنے میں یہ ایک عمارت ہے کوئی عالی شان عمارت بھی نہیں جو سونے اور جواہرات سے مزین ہو، یہ مسلمانوں کے نظام کا ایک سمبل ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ نوعِ انسانی کے اکٹھے ہونے کا مقام ہے۔ قرآن پاک میں جہاں جہاں حج کا زکر آیا ہے وہاں اس نے الناس کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی وہ بنی نوع انسان سے مخاطب ہے اور اس نظام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔
کعبہ اسلام سے پہلے بھی عربوں کے لئے بڑے احترام کی جگہ تھی، کعبہ کی تولیت قریش کے پاس تھی، اس وجہ سے ان کی اتنی عزت تھی کہ ان کے قافلے دن رات محفوظ رہتے تھے، سورہ قریش میں اس بات کا زکر کیا گیا ہے کہ کعبہ کی نسبت سے تمھیں جو عزت حاصل ہے تو کعبہ جس نظام کا مرکز ہے اس کو کیوں اختیار نہیں کرتے۔
ہمارا دین ہمیں مکمل ضابطہ حیات دیتا یے، جس کے مطابق ہمیں زندگی گزارنی ہے اور اس نظام کا مرکز اس نے کعبہ کو قرار دیا ہے۔ حج میں مسلمانوں کا سالانہ اجتماع ہوتا تھا یہ فرض قرار دیا گیا تھا، اُس وقت غیر مسلموں کو بھی دعوت دی جاتی تھی کہ وہ آئیں اور اس نظام کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
یہ نظام خلافتِ راشدہ تک تو قائم رہا اور اس کے بعد پھر ملوکیت در آئی اور پھر کیا ہوا؟ پھر حج، روزہ اور نماز کا نام باقی رہ گیا۔
مومن کا فریضہ تھا کہ وہ احتساب کائنات کرے اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں، اس کے لئے امن مہیا کریں۔ مومن سے ہی امن نکلا ہے یعنی مومن خود بھی امن میں ہوتا ہے اور پوری انسانیت کے لئے امن مہیا کرتا ہے۔ آج کل کے حالات میں تو بچہ بچہ امن کی اہمیت سے آگاہ ہے اور مومن کا تو فریضہ ہے کہ انسان چاہے مومن ہو یا کافر ہر ایک کو امن دیں۔
لیکن یہ کیا؟ فلسطین میں کشمیر میں، کیا ہو رہا ہے؟ لاکھوں عازمینِ حج رب کے سامنے جاکر کیا کہتے ہیں کہ ہم دنیا کو کیا امن دیں گئے ہم تو خود امن میں نہیں ہیں؟
ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں ابلیس بڑا مطمئن ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان زور و شور سے حج کر رہے ہیں تو ان کو کرنے دو، اس سے ہمیں کیا فرق ہڑتا ہے؟
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
ابلیس بہت خوش ہے کہ یہ قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ اس میں اُمتِ مسلمہ کی نجات ہے۔
جانتا ہوں یہ اُمت حاملِ قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
ابلیس چاہتا ہے کہ مسلمان عمل کی طرف نہ آئیں اور ہمارے بچے ملا کے مدرسے سے سبق حاصل کرتے رہیں جہاں نہ تو سائنس کا علم ہے اور نہ ہی قرآن۔
ہے یہی بہتر الہیات میں اُلجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
کعبہ مسلمانوں کے نظام کا مرکز ہے بالکل اِسی طرح جس طرح ماسکو کمیونیزم کا سمبل ہے۔ مسلمان بڑے زوق و شوق سے حج کر رہے ہیں، ہہ جاننے بغیر کے کتنے مسلمان کشمیر اور فلسطین میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
مسلمان ہر طرح سے ظلم کا مقابلہ کرنے لئے تیار ہوتا ہے وہ خود بھی امن میں ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بھی امن میں رکھتا ہے۔ وہ کسی انسان پر ظلم نہیں ہونے دینا چاہے وہ دین کا ماننے والا نہ بھی ہو۔ اس کے لئے وہ ہر وقت ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اپنی سرحدوں کو مضبوط رکھتا ہے اور ہر وقت چاک و چوبند ہوتا ہے پھر اللہ کا نظام قائم ہو سکتا ہے۔
اس حج سے پہلے پا کستان اور بھارت کی جنگ ہوئی جس نے دنیا کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت اُونچا کر دیا۔ ہمت، حوصلہ اور ہتھیاروں کی مکمل تیاری کے ساتھ وہ اپنے سے چھ گناہ دشمن پر فتح یاب ہو گئے۔ کیا یہ کامیابی خانقاہوں اور مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے سے حاصل ہو سکتی تھی، جبکہ ابلیس صرف یہی چاہتا ہے کہ
مست رکھو زکر و فکر صبح گاہی میں اُسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اُسے
پاکستان نے پاک بھارت جنگ میں جو کچھ کیا اس پر ابلیس ایک مرتبہ دوبارہ فکر مند ہے
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
پاکستان میں انشاء اللہ وہ نظام قائم ہوگا جو نوعِ انسانی کی مشکلات کا حل پیش کرے گا، انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے گا۔ اس لئے ابلیس پھر رو رہا ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اِس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

