Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Ghar Akela Tha

Ghar Akela Tha

گھر اکیلا تھا

انسان کو ان چیزوں سے بڑی وابستگی ہوتی ہے جنھیں وہ اپنے لئے خریدتا یا استعمال کرتا ہے۔ اس میں وہ گھر بھی شامل ہے جس کو وہ بڑی محبت سے بناتا ہے اس گھر کی ایک ایک چیز پر توجہ دی جاتی ہے وہ دنیا میں کہیں بھی چلا جائے، اُس کو سکون صرف اِسی گھر سے ملتا ہے، جہاں اُسں نے اپنی زندگی کے غم و خوشی کے تمام لمحات گزارے ہوتے ہیں۔

اچھی اور بری یادیں وابسطہ ہوتی ہیں۔ جزبات وابسطہ ہوتے ہیں۔ میرے اپنے جزبات اپنے اس گھر کے ساتھ وابسطہ ہیں جس کو میرے سسر نے بڑے پیار سے بنایا تھا اور اس کی ایک ایک چیز اُن کے ذوق کا پتہ دیتی ہے۔ جب اس گھر کو بیچنے کا سوچا جاتا ہے تو مجھے وہ تمام وقت جب میں شادی کرکے یہاں آئی تھی ایک ایک لمحہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے مجھے اس گھر سے بہت زیادہ وابستگی ہے۔ اس گھر میں گزارا گیا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے ہے!

پھر مجھے اپنے ساس اور سسر بھی یاد آتے ہیں۔ جب وہ گھر کی ایک ایک چیز پر دھیان دیتے تھے۔ میری ساس کو محبت اور توجہ سے بنائی گئی کراکری بے حد پسند تھی اور وہ سب چیزیں بھر پور توجہ سے اپنی نظروں کے سامنے رکھتیں تھیں۔

جس دن امی کی وفات ہوئی، وہ دن میرے لئے بہت مختلف تھا۔ اس دن میری کیفیت عجیب سی تھی کہ یہ دنیا، یہ زندگی کیا ہے؟

اس دن میں نے "مستقر" کے عنوان سے ناول لکھنا شروع کیا۔ قرآن کے طالب علم کی حیثیت سے میں ہر نئے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھتی رہتی ہوں۔ میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے "مستقر" کے لفظ پر رُک گئی۔ "مستقر" کا مطلب ہے "مختصر قیسم" short stay، اس short stay کے بعد ہم سب نے اپنی اگلی منزل کی طرف جانا ہے، لیکن دنیا اس قدر خو بصورت ہے کہ ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ ہمارا یہاں پر قیام "short stay" ہے۔

جس طرح اس گھر کو بنانے والے، سنوارنے والے، منوں مٹی کے نیچے دب گئے، ہم نے بھی اسی مٹی کے نیچے چلے جانا ہے۔ میں اپنے کزن کی شادی پر اسلام آباد گئی، وہاں مجھے چار، پانچ دن لگ گئے، میرے خاوند کو گھر کی فکر تھی کیونکہ گھر "اکیلا تھا" گھر میں صرف ملازمین ہی تھے۔

اسلام سے قبل جنگوں کے لئے جزبہ محرکہ "مالِ غنیمت" ہوتا تھا۔ ہارنے والا فریق کا مال متاع جو اس وقت زیادہ تر مویشی ہی ہوا کرتے تھے۔ جیتنے کی صورت میں مالِ غنیمت ہاتھ آ جاتا تھا۔ دنیا کی تاریخ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اسلام نے اس جزبہ کو ہی ختم کر دیا۔

حضرت عمر کے دورِ خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو وہاں کا مالِ غنیمت دیکھ کر اب بھی مورخ انگشت بدنداں ہے کہ کسی سپاہی نے ایک سوئی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔

حضور ﷺ کی تربیت نے ان میں یہ شعور دے دیا تھا کہ دنیا اور آخرت دونوں کی خوشگواریوں کا انسان کے لئے حصہ ہے، لیکن توازن کا معیار یہ ہو کہ دنیا اور آخرت دونوں کی خوشگواریوں کے حصول کے لئے ہماری راہنمائی صرف حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہی کر سکتی ہے۔

Check Also

Kab Tak?

By Mumtaz Malik