Arbon Ki Siasat
اربوں کی سیاست
پرانے زمانے میں درباری مصاحب ہوتے تھے، جن کا منصب قصیدہ خوانی ہوتا تھا۔ آج کل عوام کی زبان میں انھیں"چمچے" کہا جاتا ہے۔ خوشامدی، بھٹی کرنے والے، غلط کاموں پر بھی مرحبا اور سبحان اللہ کے نعرے بلند کرنے والے۔
(سورہ النساء میں ہے 4/38)
"جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو اس سے برا ساتھی اور کون ہو سکتا ہے۔ یہ مصاحب اس کے غلط کاموں کو بھی مزین بنا کر دکھاتے ہیں"۔
زمانہ پرانا ہو یا نیا، ایسے افراد ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔ جو طاقت وروں کی قصیدہ خوانی میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ان کے غلط اور ٹھیک کا معیار یہی ہے کہ طاقت ور کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے۔ ان کا ظمیر بھی اسی طرح متعین ہو چکا ہوتا ہے۔ چودھری برادران اس کی مثال ہیں، ان کا ایمان ہے کہ ہر طاقت ور کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے۔
سیاست اربوں کا کھیل ہے، اب سے نہیں، شروع سے، لیکن اس دور میں بھی لیاقت علی خان اور معراج خالد جیسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بات میں کافی دفعہ دوہرا چکی ہوں کہ لیاقت علی خان کی وفات کے وقت ان کے کفن دفن کے لئے بھی ان کے اکاؤنٹ میں رقم موجود نہیں تھی اور وزیراعظم ہاؤس کو چینی ملتی تھی وہ پندرہ دن میں ختم ہو جاتی تھی، پھر بچوں اور مہمانوں کو پھیکی چائے دینی پڑتی تھی۔
معراج خالد تو زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب وہ اسمبلی میں اجلاس کے لئے جا رہے تھے تو وہ رکشے میں سوار تھے اور اسی اجلاس میں شرکت کے لئے وزراء کی گاڑیاں پروٹوکول کے ساتھ گزر رہیں تھیں، اسی پروٹوکول کی وجہ سے انھیں اسمبلی میں پہنچنے میں دیر ہوگئی، اور ان کی بیگم جب وہ وزیراعلیٰ تھے، سبزی فروش سے سبزی کی قیمت پر لڑ رہی تھیں۔ یہ لوگ اسی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اور مجھے یقین ہے اربوں کی سیاست کرنے والے سیاست دانوں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہونگے۔ مونس الہٰی نے سیاست کے میدان میں جو کچھ وہ خود کرتے رہے ہیں جو کچھ ہوتا چلا آیا ہے اس کی تصویر کشی کر دی۔
اگر ہم نے اس ملک کو بچانا ہے تو اس اربوں روپے کی سیاست سے نکلنا ہوگا، ان لوگوں کے ظمیر نہیں ہوتے، کیونکہ اقبالؒ کے بقول ظمیر فی الواقع کوئی شے نہیں ہوتی بلکہ ظمیر internalized society کا نام ہوتا ہے جو ماحول اور تربیت سے مرتب ہوتا ہے، مثلاً ٹھگوں کا بچہ باآسانی کسی کی جان لے لیتا تھا۔ ہندو بچہ کو گوشت سے قے آتی ہے اور مسلمان بچہ بڑے شوق سے ہڈی پکڑ کر اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کے ظمیر بھی اس ماحول میں مرتب ہو رہے ہوتے ہیں جہاں اخلاقی معیار گرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہمیں لیاقت علی خان اور معراج خالد جیسے لوگ مل جائیں تو ان کو تاحیات وزیرِاعظم بنا دینا چاہیے، اور ایسے اشخاص پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرے گا جو عام آدمی کی سطح پر زندگی بسر کریں گئے، ایسے شخص ہمیں اس وقت مل سکیں گے جب سیاست میں پانی کی طرح روپیہ نہیں بہایا جائے گا۔
میرے بچپن کا واقعہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی سیٹ سے عام آدمی کو کھڑا کیا، وہ اچھرہ سے کھڑا ہوا تھا، اس کو کِرلا، کرِلا کہا جاتا تھا۔ اس عام شخص کو کھڑا کرنے میں بھی سیاست تھی، یہ بتانے کے لئے کہ ہم غریبوں کی جماعت ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غریبوں کی کوئی جماعت نہیں ہوتی، سیاست کھیل ہی خواص کا ہے اور ہم عوام کیڑے مکوڑے۔
مثال کے طور پر ایک شخص کہتا ہے کہ دو اور دو چھ ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ اول الذکر، دوسرے سےکہتا ہے کہ آؤ، ہم باہمی صلح کر لیں۔ میں اپنے مقام سے ہٹ کر تسلیم کئے لیتا ہوں کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں۔ تم بھی اسے تسلیم کر لو، جھگڑا ختم ہو جائے گا۔
جو شخص دو اور دو چھ کہتا تھا، وہ باطل پر تھا، اس نے اگر دو اور دو پانچ مان لیا، تو بھی وہ باطل پر ہی رہے گا لیکن جو شخص دو اور دو چار کہتا تھا، اس نے اگر دو اور دو پانچ مان لیا، تو وہ حق کو چھوڑ کر باطل پر آ گیا۔ وہ اِسے کس طرح تسلیم کر سکتا ہے؟ لوگ اِسے اُس کی ضد کہیں گے لیکن یہ ضد نہیں، حق کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے مقام پر اٹل ہو، بے لچک ہو، اس لئے وہ باطل سے مصالحت کر ہی نہیں سکتا- اقبالؒ کے الفاظ میں
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و با طل نہ کر قبول