Apni Haisiyat Mein Raho
اپنی حیثیت میں رہو
میں جب بھی کسی شخص میں غرور اور تکبر دیکھتی ہوں تو مجھے حضرت عمر کا یہ مقولہ یاد آ جاتا ہے کہ اگر کسی شخص میں غرور دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہے۔ شاہ محمود اور بہت سے بڑے بڑے اور ناموں پر یہ مقولہ صادر آتا ہے۔ شاہ صاحب جو PTI کے وائس چیئرمین اور ایچی سن کے تعلیم یافتہ، دو دفعہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور ایک دفعہ پنجاب کے وزیرِ خزانہ بھی رہ چکے ہیں۔
لیکن سب عہدے، بڑی بڑی ذمہ داریاں اور اعلیٰ تعلیم شاہ صاحب کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی، کیونکہ شاید ان کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ پچھلے دنوں کسانوں کا مظاہرہ f 9 میں ہو رہا تھا۔ دوڑا پروجیکٹ جس کی تعریف میں خان صاحب زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں وہ حقیقت میں غریب کسانوں، محکوموں اور کمزور کا خون نچوڑنے کا ترقی یافتہ پروجیکٹ ہے۔
اس پروجیکٹ کے ذریعے ان غریبوں کی زمینیں اونے پونے داموں میں خرید کر بڑے بڑے بلڈرز کو دی گئیں، ان میں ملک ریاض کا نام بھی آتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو ذرا پیچھے کیجیے تو یاد رہے کہ قیصر و کسریٰ کے نام جو دعوت نامے ارسال کیے گئے تھے اس میں کہا گیا تھا کہ تمہاری مملکت میں کسانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں، اگر تم نے ان کا تدارک نہ کیا تو تمہیں سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس قسم کی صورتِ حال میں جنگ تک کرنا اللہ کا حکم ہے جو مظلوموں کی مدافعت کے لئے لڑی جائیں گی۔ اس زمانے میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے، وہی کسان، وہی قیصر و کسریٰ جیسی من مانیاں۔
خیر بات کسانوں کے مظاہرے کی ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لئے شاہ محمود قریشی آئے تھے اور ڈی ایس پی نے اس میں شرکت سے روک دیا اور شاہ صاحب غصے میں آ گئے اور اس DSP کو کہتے ہیں کہ اپنی حیثیت میں رہو۔ کسی نے شاہ صاحب سے کہا کہ یہ قابلِ عزت آدمی ہیں۔ یہ ڈی ایس پی شائد شاہ صاحب کے نزدیک کیڑا مکوڑا ہے، خدا معلوم کتنے کیڑے مکوڑے اس DSP کے پاؤں تلے روندھے گئے ہونگے۔ بغیر تربیت کے تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ربّ کے نزدیک عزت کا معیار کچھ اور ہے۔
یہ واقعات جو میں اب تحریر کرنے جا رہی ہوں، میں ایک دفعہ پہلے بھی دوہرا چکی ہوں، لیکن بعض اوقات تکرار نا گزیر ہو جاتی ہے۔ جب اخترامِ آدمیت کا ذکر آئے تو ان واقعات کا ذکر کیے بغیر گزرا نہیں جا سکتا۔ خضرت عمرو بن عاص رضہ نے ایک شخص کو منافق کہہ دیا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اس سے زیادہ اس کی زلت اور کیا ہو سکتی ہے؟ آپ نے عمرو بن عاص سے کہا کہ اس شخص سے معافی مانگ کر اسے راضی کر لو، ورنہ میں سزا دونگا۔
اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایک دفعہ حمص کے حاکم حضرت عمیر بن سعد رظہ کے منہ سے کسی زمی کے متعلق یہ الفاظ نکل گئے۔ "اخزاک اللہ (خدا تجھے رسوا کرے) اس پر انہیں اس قدر ندامت اور تاسف ہوا کہ خضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر استعفیٰ دے دیا کہ میں اس منصب کا اہل ہی نہیں"۔ وہاں تربیت تھی جب کہ یہاں تعلیم تو ہے مگر بغیر تربیت کے، اس لئے غرور و تکبر کے بتوں کو گرانا بہت مشکل ہے۔