Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Ana Basharun Mislukum

Ana Basharun Mislukum

انا بشّرََ مثلکم

ہفتہ کو داتا دربار کی لوکل چھٹی تھی۔ اس چھٹی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم آخر توہم پرستی کے چکر سے کیوں نکل نہیں پاتے؟ لا اللہ کے نام پر لیے گۓ اس ملک میں کبھی پیر سیاست پر مسلط ہوتے رہے، کبھی وڈیرے، کبھی سرمایہ دار جیسا کہ پیر پگاڑا، مخدوم امین فہیم، کبھی گدی نشین شاہ محمود قریشی اور بہت سے دوسرے نام۔ جب ذہین انسانی عہد طفولیت میں تھا، اس وقت اس کی توہم پرستی قابل فہم تھی۔ پھر خدا نے پیغمبر بھیجنا شروع کیے جو ان انسانوں میں سے ہی تھے۔ جو ان کو دین سمجھانے کے لئے آۓ تھے۔

لیکن اب آج کل کے زمانے میں خلافت راشدہ کا نام لینے والے خان صاحب جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں ان کی توہم پرستی بہت دکھی کرتی ہے۔ ان کو جب کہا گیا کہ آپ نے پانی کے نزدیک نہیں جانا تو خان صاحب اینٹوں پر پاؤں رکھ کر پانی پر سے گزرے۔ جب ان سے کہا گیا کہ اتنے دن کالے کپڑے پہننے ہیں تو انھوں نے کالا لباس زیب تن کیے رکھا، کالی عینک لگانا خان صاحب کے لئے سعد تھا اس لئے خان صاحب کالی عینک لگا کر کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

اور جس وقت خان صاحب وزیرِاعظم تھے اس وقت ہزارہ کی کمیونٹی کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ ان کے لواحقین وہاں پر لاشیں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ آپ جب لاشیں دفنائیں گے تو میں تب آؤں گا اور جب لاشیں دفنائی گئیں تو خان صاحب تب بھی ان کے گھروں میں نہیں گئے کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ فوتگی والے گھر جانا نحوست ہو گا۔

یہ سب چیزیں اب خان صاحب کے ایمان کا حصہ بن چکی ہیں۔ یاد رہے کہ اس توہم پرستی میں خان صاحب اکیلے نہیں ہیں اس میں اور بے نظیر کا نام بھی آتا ہے اور شاید یاد رہے کہ زرداری کے بھی پیر تھے اور جب ان کی مدت صدارت ختم ہوئی اور وہ صدارتی محل سے رخصت ہوئے تو وہ پیر صاحب ان کی گاڑی کے گرد پھونکیں مارتے ہوئے پائے گئے۔

حضورؐ سے بڑی ہستی اس دنیا میں نہیں آئی، جب آپ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو اس دن اتفاق سے سورج یا چاند میں سے کسی کو گرہن لگا تھا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ حضورؐ کے غم میں اجرامِ فلکی بھی دکھی ہیں، تو حضورؐ نے ان کو فوراً ٹوکا کہ چاند یا سورج کو گرہن قدرت کے پروگرام کے مطابق ہوتا ہے اس سے کسی کی موت اور پیدائش کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور اس خیال کو عام ہونے سے اسی وقت روک دیا۔ اس ذاتِ گرامی کی کیفیت یہ ہے کہ دنیا بھر کی عظمتوں اور رفعتوں کے مقامِ بلند پر فائز ہونے کے باوجود یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ انا بشّرََ مثلکم (یعنی میں تمھارے جیسا ہی ایک انسان ہوں)۔

Check Also

Bhaag Nikalne Ki Khwahish Bhi Poori Nahi Hoti

By Haider Javed Syed