Allah Ki Marzi
اللہ کی مرضی
عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ یہ مارچ خونی ہو گا، انھوں نے tweet کی کہ یہ انقلاب یا تو خون سے آۓ گا یا ووٹ سے، خان صاحب کون سا انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ جب آپ خود محفوظ گھر میں بیٹھے ہوں، آپ کی فیملی محفوظ ہو تو سڑکوں پر روزگار کے لئے مارے مارے پھرنے والوں کی زندگی کہاں اتنی اہم ہوتی ہے۔ آپ کا تو اپنا کنٹینر شاندار ہے، ہر سہولت سے مزین۔
میں بار بار کہتی ہوں کہ انقلاب عام آدمی کی سطح پر زندگی گزاریں، کم از کم سڑکوں پر چند افراد جو پیدل مارچ کر رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل کر دیکھ لیں، بات کرتے ہیں انقلاب کی آپ خود نوابوں والی زندگی گزاریں اور غریبوں کو سڑکوں پر ذلیل کریں ایسے انقلاب نہیں آیا کرتے، عوام جلسوں کی انجوائمنٹ سے تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن انقلاب لانے کے لئے آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، انقلاب لانے کا دم خم نہ آپ میں ہے نہ ان میں۔ وقت بتا دے گا کچھ بتا رہا ہے۔
میں آپ کو آپ کے انقلاب کامیاب ہونے کا شرطیہ راز دوبارہ بتاتی چلوں کہ آپ بھی عام انسانوں کی سطح پر اپنے آپ کو لے آئیں اور عام انسان جیسی زندگی گزاریں، تو آپ دیکھیں گے کہ پھر ہر بندہ آپ کے لئے مرنے کو تیار ہو جائے گا۔ خاتون رپوٹر صدف کی لانگ مارچ میں شہادت ہوئی۔ شہادت اس لئے کہ وہ اپنے روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہی تھی، وہ عمران خان کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی، اس کو شاید کہا گیا تھا کہ اس کا انٹرویو کروا دیا جائے گا پھر اس کو کنٹینر پر چڑھا دیا گیا اور خان صاحب کے گارڈ نے اس کو دھکا دیا اور وہ کنٹینر کے نیچے آ گئی۔
کسی تفتیش کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ایک بلی کا بچہ بھی اگر آپ کی گاڑی کے نیچے آ جائے تو آپ کو دکھ ہوتا ہے۔ ایک جیتی جاگتی بچوں کی ماں، کنٹینر کے نیچے آ گئی۔ کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔ اس کے شوہر نے اللہ کی مرضی کہہ کر معاملہ ختم کر دیا یا کوئی لالچ دے کر اس معاملہ کو ختم کروایا گیا۔ راتوں رات اس کو دفنایا گیا کیونکہ صبح خان صاحب نے صدف کے گھر تعزیت کے لئے جانا تھا۔ صدف کی موت کوئی طبی موت نہیں تھی۔
خان صاحب اگر اتنے بڑے منصف ہوتے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ نکلا۔ صدف کے شوہر نے کوئی بھی کاروائی کرنے سے انکار کرتے ہوئے، اس کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ اس کی زندگی اتنی سستی نکلی، ہم بہت آسانی سے اللہ کی مرضی کہہ دیتے ہیں۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ اللہ کی مرضی کیا ہے؟
7 ہجری کے اوآخر کی بات ہے کہ فلسطین میں طاعون کی وبا پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے شام سے عراق تک سارے علاقہ میں سیلاب کی طرح پھیل گئی۔ اسلامی فوجیں سب اس کی لپیٹ میں آ گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار صحابہ اس وبا کی نظر ہوئے۔ حضرت عمرؓ شام کا نظم و نسق بچشمِ خویش دیکھنے کی غرض سے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ تبوک کے قریب پہنچے تو طاعون کی تباہ کاریوں کی خبر ملی۔
صحابہ سے مشورہ کیا گیا کہ آگے جانا چاہیے یا واپس، فیصلہ یہ طے پایا کہ آپ کو ساتھیوں سمیت واپس تشریف لے جانا چاہیے۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس کے خلاف حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ "کیا آپ تقدیرِ الہٰی سے بھاگ رہے ہیں؟" آپ نے جلدی سے جواب دیا کہ "میں خدا کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں"۔ یہی ابوعبیدہ تھے جو اس وباء میں شہید ہو گئے۔
حضرت عمرؓ نے انھیں خط لکھا کہ ایک اہم مشورہ آپ سے کرنا ہے تو آپ فوراََ مدینہ تشریف لے آئیں۔ حضرت ابوعبیدہ فوراََ حضرت عمرؓ کے ارادہ کو بھانپ گئے اور جواب دیا کہ مجھے اس حکم کی تعمیل سے معزور رکھئے، میں اپنے سپاہیوں کو خطرہ میں چھوڑ کر واپس نہیں آ سکتا۔ جو فیصلہ حضرت عمر نے کیا وہ بھی خدا کی مرضی کے مطابق تھا یا اس کی تقدیر کے مطابق تھا حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے ساتھی بھی موجود تھے اور وہاں داخلے کی صورت میں سب موت کے منہ میں چلے جاتے۔
ابوعبیدہ کا وہاں رکنے کا فیصلہ بھی بڑی قوتِ ارادی کا ثبوت تھا کہ وہ اپنے سپاہیوں کو اکیلے چھوڑ کر نہیں آئے۔ دونوں فیصلے خدا کی مرضی کے مطابق یا تقدیر یا رضا کے مطابق تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو بچا لیا کیونکہ وہاں داخلہ کی صورت میں موت یقینی تھی۔ جیسا کہ ابوعبیدہ اور ان کے ساتھیوں کی ہوئی، وہ بھی خدا کی مرضی یا اس کی تقدیر سے ہوئی، کیونکہ قدرتی آفات پر جب تک انسان تحقیق کر کے اس سے چھٹکارا نہ پا لے اس کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔
صدف کی موت ایک طبی موت نہیں تھی ایک قتل تھا، اور نہ قتل کبھی خدا کی مرضی سے ہوا کرتا۔ صدف مر کے اپنے گھر کو سنوار گئی، 50 کروڑ پنجاب حکومت نے اور 50 کروڑ وفاقی حکومت نے دئیے۔ اس کے شوہر نعیم کو اور بیٹی کو سرکاری نوکری دے دی گئی ہے۔ ناحق موت کی قیمت لگ گئی اب اللہ کی مرضی کہہ کر ہم آگے بڑھ جائیں گے۔