Aik Din (2)
ایک دن (2)

میں اس کالم کے پہلے حصے میں "مترفین" کا ذکر کر رہی تھی جو محنت کش طبقے پر عیش کرتے ہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر ہمارے رب نے ہم سے کیا کہا ہے؟
رب العالمین سے مراد تمام جہانوں کا رب ہے۔ "رب" یعنی "پا لنے والا" اس نے تمام انسانوں کے رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ اب یہ سوال کہ یہ ذمہ داری کس طرح پوری ہوتی ہے، یہ ذمہ داری انسانوں ہی کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے جب ہم اسلام کا معاشی نظام نافز کرتے ہیں جس مقصد کے لئے ہم نے پا کستان کا مطا لبہ کیا تھا۔
اس کے لئے سب سے پہلے تو ذرائع رزق تمام انسانوں کے لئے کھلے رہیں۔ دنیا میں مختلف ممالک ہیں جن میں اختلاف ہے اس طرح کے ایک حصہ سارا سال برف سے ڑھکا رہتا ہے۔ انسان وہاں بھی بستے ہیں دوسرا حصہ ہے جہاں چاروں طرف سے پانی ہی پانی ہے سمندر ہے، اس کے درمیان چھوٹا سا جزیرہ ہے، انسان وہاں بھی بستے ہیں جہاں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں، ان کے اوپر درخت ہی درخت ہیں، وہاں چھوٹی موٹی کیاریوں میں کوئی فصل اُگ جاتی ہے انسان وہاں بھی رہتے ہیں۔
انسان صحراوں میں بھی رہتے ہیں جہاں کل تک سوائے کھجوروں کی گٹھلیوں کے کچھ ملتا ہی نہیں تھا، جسے وادی "غیر زی زرع" کہا جاتا ہے انسان وہاں بھی رہتے ہیں، ایسے سرد ممالک ہیں جہاں سارا سال بارش ہوتی ہے، دھند ہوتی ہے، کچھ tropical contries ہوتے ہیں، جہاں شجر اور بارانی دونوں طرح کی زمینیں ہوتی ہیں۔ انسان وہاں بھی رہتے ہیں۔ ان سب کے رزق کی ذمہ داری "رب العا لمین" نے لی ہے۔ کس طرح لی ہے، اللہ نے کوئی بات بھی ادھوری نہیں چھوڑی۔
اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر اِسی لئے لی کہ اس کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے۔ اس کے باوجود کہ اس کتاب سے بھی ہم اپنے اپنے مطلب کے معنی اخذ کرتے ہیں، سورہ الزحرف میں اللہ فرماتا ہے "اُفّرّ یتُم ما تحر و ثونُ" 56: 63 "یہ جو کھیتی باڑی کرتے ہو تو غور کرو کہ اس میں تمھارا عمل دخل کتنا ہے۔
اس مضمون کو اقبال نے "الا رض اللہ" میں اس طرح بیان کیا ہے
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریاؤں کی موجوں سے اُ ٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد ساز گار
خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آ فتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب
مو سموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
خدایا! یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
یہ زمین خدا کی ہے۔ اس کی پیداوار تمام انسانوں میں برابر تقسیم ہونی چاہیے۔ انسانوں میں رزق کمانے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، کچھ زیادہ کما سکتے ہیں اور کچھ کم! لیکن اس کو تقسیم برابر کیا جانا چاہیے!
یہ تھا وہ انقلابی نعرہ جو ہر نبی لے کر آتا رہا!
جس پر کچھ عرصے تک تو عمل ہوتا رہا بعد میں انسان بھول جاتا رہا!
بہت سے لوگ یہ سوال کریں گئے کہ یہ بات تو کارل مارکس نے بھی کی تھی، یہی کمیونیزم تھا!
"To each according to his capacity، to each according to his need"
اب سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص جان مار کر مخنت کرے اور صرف اپنی ضرورت کا رکھے اور باقی دے دے۔ یہ کون کرے گا؟
یہ وہ دل کرے گا جس کی مثال ہمارے پاس موجود ہے!
حضرت عثمان نے ایک دفعہ کھانے کے بعد اپنی زوجہ محترمہ سے کچھ میٹھے کی فرمائش کی تو انھوں نے کہا کہ بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں میٹھا نہیں ہوتا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک ہفتہ بعد آپ کی زوجہ نے میٹھا بھی کھانے کے بعد رکھ دیا، تو آپ نے سوال کیا کہ یہ کیسے بنا تو آپ کی زوجہ نے کہا کہ میں آٹا میں سے روزانہ مٹھی بھر آٹا علحیدہ کرتی رہی اور اس کے بدلے میں کھجور کا شیرہ خرید کر میٹھا بنا لیا۔ آپ نے زوجہ محترمہ کا شکریہ ادا کیا اور کھانے کے فوراََ بعد آپ بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں جا کر ان سے کہا کہ ہمارے راشن میں سے مٹھی بھر آٹا کم کر دیجئے کیونکہ ہفتہ بھر کے تجربے نے بتا یا ہے کہ مٹھی بھر کم آٹے میں بھی ہمارا گزارا ہو جاتا ہے!
یہ دل نافز کرے گا "اسلام کا معاشی نظام" جس میں ہر شخص خو شخال ہوگا! جو حقیقتاََ جنتی معاشرہ ہوگا، وہ وقت آنا ہی ہے! وہ وقت آئے گا!
ایک دن!