Aik Din (1)
ایک دن (1)

میں قرآن کی ایک ادنٰی طالب علم ہوں، قرآن پڑھتے پڑھتے میں سوچنے لگتی ہوں کہ اللہ نے انبیاء اکرام کے زریعے ایک پیغام دیا کہ سب انسان برابر ہیں۔ یہ پیغام اب بھی ہمارے پاس قرآن پاک میں محفوظ ہے، لیکن اتنا قرآن پڑھنے کے باوجود ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے!
آج کل ملک ریاض کا بہت چرچا ہے۔ اس کا شمار موجودہ دور کے طاقتور ترین افراد میں ہوتا ہے۔ ازل سے طاقت کا سر چشمہ قوت اور دولت رہی ہے۔ دولت کی بدولت طاقت بھی خریدی جاتی رہی ہے، لیکن ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج، ہر قوت، ہر دولت کو زوال ہے اگر وہ وحی کے تابع نہ ہو تو!
اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء بھیجنے شروع کئے، حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک سب ایک ہی پہغام لے کر آتے رہے، جتنے بھی مترفین ہوتے ہیں وہ دوسروں کی کمائی پر عیش کرتے ہیں۔ مترفین کہتے ہی ان لوگوں کو ہیں جو دوسروں کی کمائی پر عیش کرے اور یہی مترفین اس محنت کش طبقے کو جن کی کمائی پر عیش کرتے ہیں ان کو کمی کمین کہتے ہیں کم تر خیال کرتے ہیں، کمی کمین کا لفظ تو شاید آپ نے عام سنا ہوگا!
تمام انبیاء کا پیغام کہ تمام انسان قابلِ عزت اور برابر ہیں، یہ انقلابی پیغام تھا جو ہر بنی لے کر آتا رہا ہے! لیکن ہر دور میں انسان اس پیغام کو بھول جاتا رہا!
پاکستان کا مطالبہ ہم نے اِسی لئے کیا تھا کہ ہم اس معاشی نظام کو نافذ کر سکیں جس سے امیر، غریب کا فرق مٹ جائے!
میں جمخانہ میں ایک کتاب "محمد، کی launch کی تقریب میں گئی۔ میں نے اس کتاب کی مصنفہ سے سوال کیا کہ اقبال نے "نوحہ ابو جہل" لکھی اور اس میں وہ کہتے ہیں کہ ابو جہل نے غلافِ کعبہ تھام کر اس نے گڑا گڑا کر خدا سے کہا کہ محمد ﷺ جو دین لے کر آنا چاہتا ہے وہ ہمارے معاشرے میں معاشرتی تفریق ختم کر دینا چاہتا ہے جس سے امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے گا!
میں نے مصنفہ سے سوال کیا کہ آپ نے "محمد" ﷺ پر اتنی شاندار کتاب لکھی ہے کیا آپ کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ یہ معاشرتی تفریق کیونکر مٹ سکتی ہے!
انھوں نے ولید اقبال سے اس سوال کا جواب لینے کو کہاکہ وہ اقبال کے پوتے ہیں اس بات کا جواب ان کے پاس ہوگا! ولید اقبال کا کہنا تھا کہ یہ فرق عمران خان ختم کرے گا! جب کہ میرا جواب یہ تھا کہ یہ فرق وہ ختم کرے گا جو عام آدمی کی سطح پر زندگی بسر کرے گا!
ریاستِ مدینہ اور بعد میں خلافتِ راشدہ میں ایسا ہوا تھا، لیکن اگر خالی ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کا نام لینے سے نظام قائم نہیں ہوا کرتے!
سوال یہ نہیں ہے کہ بے تحاشا دولت جائز ہے یا نہیں!
سفر کے دوران ہم اتنا ہی سامان ساتھ لے کر جا سکتے ہیں جو ہماری ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضروری سامان کو "متاع" کہتے ہیں۔ مال متاع کا لفظ تو آپ نے اکثر سنا ہوگا۔ متاع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ جتنی ضرورت ہو رکھ لیا جائے۔ یہی پیغام تمام انبیاء کرام لے کر آتے رہے!
لیکن انسان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔
جیسا کہ سورہ تکاٹر میں کہا گیا ہے "ختیُ زرتم المقابر" یہاں تک کہ تم قبر تک جا پہنچتے ہو۔
ملک ریاض "دولت کا نمائندہ" وہ دولت جو ہر ایک کو خرید سکتی ہے، لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ظلم کا بہرحال خاتمہ ہی ہونا ہوتا ہے۔ "ظلم" کا لفظی مطلب ہے کہ جس جگہ جس چیز کو ہونا چاہیے وہ وہاں نہ ہو۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ ظالم کی کھیتی پنپ نہیں سکتی!
اگر ابھی بھی اس دولت کے نمائندہ کی پکڑ نہیں ہوتی، پکڑ ہونی تو ضرور ہے ایک دن۔ اگر وہ "ایک دن" آج نہیں ہے تو بیت قریب ضرور ہے!
"ایک دن"
جاری ہے۔۔